صدر کی ممنونیت .... ”کچھ شرم کچھ حیا“

غلام مصطفی کھربینظیر بھٹو کی وزارتِ عظمیٰ میں وزیر پانی اور بجلی تھے وہ اس دور کا واقعہ متعدد بار دہرا چکے ہیں۔ کھر صاحب کہتے ہیں۔”اُن دنوں امریکہ سے ایک وفد پاکستان میں بجلی کے معاہدوں کیلئے آیا تھا۔ اس میں ایک ہندو رکن کانگریس بھی تھا۔اس نے مجھ سے الگ ملنے کی خواہش کی۔ میں نے اسکی بات سنی۔ وہ پاکستان میں کرپشن پر بات کرنا چاہتا تھا۔ اس نے کہا کرپشن بڑے ممالک میں بھی ہے، بھارت میں بھی کم نہیں۔ پاکستان میں یہ کسی اور ہی شکل میں ہے۔ امریکی وفد بھارت گیا دس دن تک انکے سیاستدان اور بیوروکریٹ لڑتے رہے کہ بجلی کی قیمت کم کرو۔ ہم الیکٹرک ریٹ کم از کم سطح پر لے آئے تو انہوں نے کہا کہ اب ہمارے کمیشن کی بات کرو جس پر ہم ششدر رہ گئے۔ ان کا جواب تھا ہم اپنے ملک کے مفاد کو زک نہیں پہنچا سکتے۔ کمیشن بھی ضرور لیں گے اور آپ سے لیں گے۔ وہاں دس دن کی جرح کے بعدتین سنٹ میں معاملہ فائنل ہوا،اِدھر پاکستان میں ہم نے سات سنٹ اس امکان پر مانگے کہ یہ لوگ بھی کم کرائیں گے توچند دن میں معاملہ تین چار سنٹ میں فائنل ہوجائےگامگر یہاں پہلے ہی روزسات سنٹ میں معاملہ ڈَن ہوگیا،اب ہم سات روز سے بیٹھے ہیں سب کہتے ہیں کہ ہمارا کمیشن بڑھاﺅتب سائن ہونگے۔
یہ 25تیس سالہ پرانی کہا نی ہے اس دوران ہم نے آگے کی طرف سفر طے کیاہے،وہیں کھڑے ہیں یا کچھ پیچھے چلے گئے ہیں؟اس سوال کا جواب صدر ممنون حسین کے بیان میں موجود ہے۔ایک بیان تو انہوں نے پاناما لیکس کے افشاءکے شروع میں دیا تھا جب وزیراعظم نواز شریف اپنا نام پاناما لیکس میں نہ آنے کے باوجود اسکی لپیٹ میں اپنے بچوں کی آف شور کمپنیوں کی وجہ سے آرہے تھے۔صدر کی زبان سے سہواً نکل گیا یاقومی درد جاگ اُٹھا کہ انہوں نے پاناما لیکس کے افشاءکو پاکستان پر اللہ کی رحمت قرار دیا جسکے باعث بیرون ممالک پڑے لوٹ مار کے کھربوں ڈالر پاکستان واپس آنے کی امید پیدا ہوئی تھی۔اس پر سنا ہے سرکار نے شدید ناراضی ظاہر کی جنہیں منانے کےلئے اپنے ہاتھ سے گول گپے بنا کر کھلانا پڑے تھے۔اب ممنون کے اندر ایک بار پھرقوم کیلئے درد جاگا جو انکی زباں سے عیاں ہوا ہے۔ایوان صدر میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صدر مملکت نے کہا۔ ”پاکستان کی بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں جو شخص جتنا کرپٹ اور بدعنوان ہوگا وہی لمبی لمبی تقریریں کرتا پھرے گا، ان لوگوں کو کوئی شرم ہوتی ہے نہ کوئی حیا، تمام اداروں کے اندر افسران کو کرپشن اور حرام خوری کی عادت ہوچکی ہے ۔ میں نے نشاندہی کی کہ پاور ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کے اندر کرپٹ افراد کا ایک مضبوط نیٹ ورک قائم ہے، ذاتی طور پر تجویز دی کہ پاور ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کے سربراہان کو تبدیل کیا جائے لیکن اس پر تاحال کوئی عملدرآمد نہیں ہورہا، اسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انھیں کرپشن اور حرام خوری کی عادت ہوچکی ہے۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ آج حق لینے کیلئے بھی سفارش اور رشوت کا کلچر فروغ پا چکا ہے۔ ریلوے کی ہزاروں ایکڑ زمین پر مافیا نے ناجائز قبضہ جمایا ہوا ہے جبکہ ان کیخلاف ایکشن کیا جاتا ہے تو وہ قبضہ مافیا عدالتوں میں چلے جاتے ہیں اور عدالتیں اسٹے آرڈر جاری کرنے میں دیر نہیں لگاتیں۔ بدقسمتی سے غلط کاموں میں سب ملے ہوئے ہوتے ہیں لیکن ہمیں ان غلط کاموں کے سدباب اور نیٹ ورک کو توڑنے کیلئے ملکر کام کرنا ہوگا“ ۔ صدر نے جو کہا، سچ اور آب زر سے لکھنے کے قابل ہے۔ صدر کا عہدہ آج محض ایک علامتی منصب ہے مگر وہ عام شہری سے زیادہ حکومتی معمولات اور معاملات سے واقف ہیں۔ عمران خان یہی باتیں کہتے تو حکومتی اکابرین کی تنقید سے کہاں بچ پاتے۔ جمہوری حکومت کیلئے ایک بے اختیار صدر کی طرف سے یہ چارج شیٹ ہے۔ سپریم کورٹ پہلے ہی بارہا بیڈ گورننس کی نشاندہی کر چکی ہے۔ میرے سامنے دی نیوز میں فرخ سلیم کی دو روز قبل پاور ریٹ کے عنوان سے شائع ہونیوالی رپورٹ ہے۔ اسکے مطابق ہم آج سے 25 تیس سال قبل جہاں کھڑے تھے اس سے بھی کچھ پیچھے سرک گئے ہیں۔ ریوا سولر پارک بھارتی حکومت اور مدھیہ پردیش کا مشترکہ منصوبہ ہے۔ 10 فروری 2017 کو سویڈش کمپنی کے ساتھ 750 میگا واٹ کا معاہدہ طے پایا۔ پاکستانی کرنسی میں اسکی قیمت 5.19 روپے فی یونٹ طے پائی۔ پاکستان میں دو سال قبل مارچ 2015ءمیں قائد اعظم سولر پاور کیلئے نیپرا نے 14.85 روپے یونٹ کی منظوری دی تھی۔ (ریوا سولر پاور فی میگاواٹ کاسٹ 0.6 ملین ڈالر ہے جبکہ قائد اعظم سولر پارک 1.5 ملین ڈالر ہے) انڈیا میں سویڈش کمپنی جبکہ پاکستان میں چینی کمپنی کام کر رہی ہے۔ مذکورہ رپورٹ میں کوئلے اور ہوا سے بجلی پیدا کرنے منصوبوں کے ٹھیکوں کا بھی اسی طرح کا تقابل موجود ہے۔
صدر پاکستان نے کہا ہے کہ ہمیں غلط کاموں کے سد باب اور نیٹ ورک توڑنے کیلئے مل کر کام کرنا ہو گا۔ صدر صاحب کس کے ساتھ مل کر نیٹ ورک توڑنے کی خواہش کا اظہار کر رہے ہیں۔ ایسا نیٹ ورک بنانے اور چلانے والوں کے ساتھ مل کر؟ صدر مجبور محض اور بے بس ضرور ہیں تاہم ان کا ضمیر کی آواز پر تڑپ اٹھنا بھی اس دور میں غنیمت ہے۔ تاہم ایسے بیانات سرکار کیلئے ناقابل برداشت ہوسکتے ہیں۔ خدا خیر کرے۔ہم دہشتگردی کی دلدل میں دھنسے، کرپشن کے بھنور میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ایسے میں لاہور میں پی ایس ایل فائنل کے انعقاد کا فیصلہ قوم کیلئے تپش حبس اور لو میں بادنسیم کے جھونکے کے مترادف ہے۔ عمران خان نے اسے پاگل پن قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ انہونی ہو گئی تو اگلے دس سال تک ہمارے ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ نہیں ہو گی۔ اگر لاہور میں فائنل نہیں ہوتا تو کیا عمران اگلے سال پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ ہونے کی ضمانت دے سکتے ہیں؟ مریم اورنگ زیب نے عمران کو اس بیان پر بال ٹھاکرے کہا ہے۔ بال ٹھاکرے کبھی بھارت میں ایسے میچ کےخلاف زبان نہ کھولتا۔ خان صاحب! آپ ڈٹ کر مخالفت کریں، پورا زور لگا لیں، اگر سٹیڈیم آپ کے جلسوں کی طرح ہاﺅس فل نہ ہوا تو آپکے خدشات کو درست مان لیا جائیگا۔ سیاست میں کھیل وہ بھی اپنے پسندیدہ کھیل کا بیڑہ غرق نہ کریں۔ تھوڑی سی ہمت کریں پچ دیکھنے جائیں۔
آج کی سب سے زیادہ حیران کن خبر وزیراعظم کی طرف سے چیف جسٹس صاحبان کیلئے بلٹ پروف گاڑیوں کی منظوری ہے جس کا اطلاق چیف جسٹس افتخار چودھری سے ہو گا۔ افتخار چودھری کے پاس ایک بلٹ گاڑی موجود ہے۔ حکومت واپس لینے کیلئے ہائیکورٹ گئی ہوئی ہے۔ اس گاڑی کو ”حلال“ قرار دینے کیلئے وزیراعظم نے نیا آرڈر جاری کر دیا۔ دہشتگردی کے موجودہ حالات میں سکیورٹی کی انتہائی اہمیت ہے۔ چیف جسٹس صاحبان بلا امتیاز قابل احترام ہیں۔ حکومت ان میں امتیاز کیوں کر رہی ہے۔ جسٹس افتخار سے پہلے ریٹائر ہونے والے ججوں کو کیا سکیورٹی کی ضرورت نہیں ہے۔ جسٹس چودھری جیسا بلٹ پروف گاڑی میں سواری کا شوق شاید دیگر ججوں کو نہ ہو، صرف ان کو گاڑی دینے کا جواز پیدا کرنے کیلئے خزانے کا کباڑہ چہ معنی دارو؟ اس ”دیالوین“ پر چیف جسٹس پاکستان سے سوموٹو کی امید کی جا سکتی ہے۔

فضل حسین اعوان....شفق

ای پیپر دی نیشن