فوجی عدالتیں پیپلزپارٹی کے سوا تمام جماعتیں 2 سال توسیع پر متفق نگران کیمٹی بنے گی

Mar 01, 2017

اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی+ نیوز ایجنسیاں) پارلیمانی جماعتوں کے درمیان فوجی عدالتوں کی مدت میں دو سال کی توسیع کیلئے آئینی ترمیم پر اتفاق رائے ہو گیا، فوجی عدالتوں کیلئے ”نگران پارلیمانی کمیٹی“ قائم کی جائے گی۔ نگران پارلیمانی کمیٹی کے قیام کیلئے سینٹ میں 3 مارچ کو اور قومی اسمبلی میں 6 مارچ کو قراردادیں پیش کی جائیں گی اور عدالتوں میں توسیع کا قانون 7 جنوری 2017ءسے لاگو ہو گا اور دو سال کے بعد مقدمات فوجی عدالتوں سے انسداد دہشت گردی کی عدالتوں کو منتقل ہو جائیں گے۔ وفاقی وزارت قانون و انصاف کو فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع سے متعلق آٰئینی بل کی نوک پلک درست کرنے کی ہدایت کر دی گئی۔ پارلیمانی رہنماﺅں کا مشاورتی اجلاس سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی صدارت میں ہوا۔ پیپلز پارٹی نے فوجی عدالتوں کے معاملہ پر آل پارٹیز کانفرنس کے پیش نظر اجلاس میںشرکت نہیں کی۔ وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار، وفاقی وزیر پارلیمانی امور شیخ آفتاب احمد، شاہ محمود قریشی، شیریں مزاری، اعظم سواتی، سینیٹر سراج الحق، سینیٹر طلحہ محمود، ڈاکٹر فاروق ستار، آفتاب احمد خان شیرپاﺅ، صاحبزادہ طارق اللہ، فاٹا کے پارلیمانی رہنما شاہ جی گل آفریدی، عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد اور دیگر رہنماﺅں نے شرکت کی۔ اجلاس میں مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف نے مشترکہ طور پر پارلیمانی جماعتوں کے متفقہ فیصلوں کا اعلان کیا۔ وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے کہا کہ سب کا متفقہ فیصلہ ہے کہ فوجی عدالتوں میں توسیع ہونی چاہئے، روڈمیپ ڈسکس ہوا ہے، نگران پارلیمانی کمیٹی بنے گی تاکہ آئندہ توسیع کی ضرورت نہ پڑے۔ امید ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی چار مارچ کو بھی اے پی سی میں فوجی عدالتوں میں متفق ہو جائے گی، 3 اور 6 مارچ کو سینٹ اور قومی اسمبلی کے اجلاس طلب کئے جا رہے ہیں۔ پارلیمنٹ میں ترمیم کی منظوری کا مرحلہ مارچ میں شروع ہو جائے گا۔ تحریک انصاف کے ڈپٹی پارلیمانی لیڈر شاہ محمود قریشی نے کہا کہ فوجی عدالتوں میں توسیع پر تمام سیاسی جماعتیں متفق ہو گئی ہیں، سکیورٹی کے غیرمعمولی حالات ہیں۔ سوال تھا کہ سابقہ قباحتیں کیسے دور کی جائیں، اب نگران کمیٹی بنے گی، دو سال کے بعد ان عدالتوں کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ اگر فوجی عدالتوں کا راستہ پسندیدہ عمل نہیں، دنیا بھر میں دہشت گردی کا مقابلہ پولیس کرتی ہے، ہم فوج اور رینجرز کی مدد لے رہے ہیں۔ ہمارے سیاسی اختلافات اپنی جگہ مگر یہ اہم قومی معاملہ ہے، ملکی مفاد میں حکومت کا ساتھ دے رہے ہیں۔ جماعت اسلامی کے رہنما صاحبزادہ طارق اللہ نے کہا کہ پہلے بھی کہا تھا کہ دہشت گردی کو مذہب سے منسلک نہ کیا جائے، دہشت گرد دہشت گرد ہوتا ہے خواہ کو کوئی بھی ہو، دہشت گردی کے خلاف پوری قوم حکومت کی پشت پر ہے، آئینی ترمیم میں ریاست کے خلاف ہر قسم کی سنگین کارروائیوں کے ذمہ داران کے خلاف کارروائی ہو گی۔ اے این پی کے رہنما حاجی غلام احمد بلور کا کہنا تھا کہ اگرچہ فوجی عدالتوں کا قیام بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے لیکن پاکستان میں امن وامان سے متعلق جیسے حالات ہیں ا±ن کو مدنظر رکھتے ہوئے فوجی عدالتوں کا قیام ناگزیر ہے۔ انہوں نے صوبہ پنجاب میں پختونوں کو نشانہ بنانے اور ا±ن کا استحصال کرنے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کے بعد ملک میں لسانیت پھیلانے کی کوشش کی جارہی ہے جو کو روکنا ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر حکومت نے گذشتہ دو سال کے دوران شدت پسندی سے نمٹنے کے لیے مناسب اقدامات کیے ہوتے تو آج شاید فوجی عدالتوں کے قیام میں توسیع کی نوبت نہ آتی۔ توقع ہے کہ پیپلز پارٹی بھی 4 مارچ کو ہونے والی اے پی سی کے ذریعے اس پر اتفاق کرلے گی اور فوجی عدالتوں کی حمایت کرے گی۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ فوجی عدالتوں میں توسیع کیلئے آئینی ترمیم کی ضرورت ہے، کسی نکتے میں تبدیلی پر سب راضی ہوئے تو قومی اسمبلی میں حتمی مسودہ طے کر لیں گے۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں، کسی سے زیادتی ہو رہی ہے تو اس پر ایکشن لیں گے، تمام سیاسی جماعتوں نے قومی ضرورت کے تحت بھرپور ساتھ دیا ہے، اس قومی مسئلے پر کوئی سیاست نہیں ہوگی۔ اس موقع پر عوامی مسلم لیگ کے رہنما شیخ رشید نے کہا کہ پارلیمانی رہنما صحافیوں سے گفتگو میں باضابطہ اعلان کریں گے، فوجی عدالتوں پر بل پیش ہوگا تو رفتہ رفتہ سب کے تحفظات دور ہوجائیں گے۔ قومی وطن پارٹی کے آفتاب شیر پاﺅ نے کہا کہ امید کرتے ہیں اس بار فوجی عدالتوں کا قیام آخری بار ہو گا۔ نعیمہ کشور نے کہا کہ مذہب کے نام کو مسودے سے منسلک نہ کیا جائے، 6مارچ کے اجلاس تک ہماری مشاورت چلتی رہے گی۔ ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ ایم کیو ایم نے پہلے بھی اپنے تحفظات کے باوجود فوجی عدالتوں کی حمایت کی، حکومت دہشتگردی کے معاملے پر سنجیدہ نہیں، نیشنل ایکشن پلان پر پوری طرح سے عمل نہیں ہوا۔ اگر پوری قوم ساتھ دے گی تو رد الفساد کامیاب ہوگا۔
فوجی عدالتیں/ اتفاق

مزیدخبریں