”کالا علم“

مجھے خبر نہیں کہ یہ منیرنیازی کی حیران کر دینے والی خود کلامی تھی یا وہ اپنے کسی دوست یا محبوب کو مخلصانہ مشورہ دے رہے تھے۔ اپنے ایک بہت ہی خوب صورت شعرمیں لیکن وہ ”باب علم“ کی دہلیز پر کھڑے افراد کو ”اس خوف میں“ داخل نہ ہونے کا مشورہ دیتے ہوئے ضرور پائے گئے ہیں۔

علم یقینا ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ نسلِ انسانی نے اس کو اپنے خوف پر قابو پانے کا ذریعہ بنایا۔ اپنی بقاءکو یقینی بنانے کےلئے استعمال کیا۔ دُنیا کے مختلف مقامات کے درمیان موجود فاصلوں کو نت نئی ایجادات کی بدولت تقریباََ مٹا ڈالا۔ موسموں کی شدت سے بچانے کے ہزار ہا طریقے دریافت کئے۔ علم کی تمامتر اہمیت و افادیت کے باوجود بلھے شاہ ”علموں بس کریں اویار“ پکار اُٹھا تو اس کی وجہ بھی بہت ٹھوس رہی ہوگی۔ کئی بار اس وجہ کا تعین کرنا چاہا مگر ہمیشہ ناکامی ہوئی۔ صوفیاءکو وجد کے عالم میں ”غیب سے“ جو مضامین نصیب ہوتے ہیں وہ مجھ جیسے عامیوں کی سمجھ سے بالاتر ہیں۔
ہماری سادہ لوح بڑھیا عورتیں بھی علم کے مشتاق افراد کو ہمیشہ شک کی نگاہ سے دیکھا کرتی تھیں۔ ابتداءمیں مجھے یہ گماں تھا کہ شاید کتابوں میں گم افراد کی خلوت پسندی انہیں ایسے افراد کو جذبات سے عاری اور مغرور سمجھنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ کئی داستانوں کا بغور مطالعہ کیا تو احساس ہوا کہ علم کو انسان جبلی طور پر کئی قسموں میں بٹا ہوا دیکھنے کا عادی ہے اور علم کی ایک ایسی قسم بھی ہے جسے ”کالا علم“ کہا جاتا ہے۔ علم کی اس قسم سے پناہ مانگی جاتی ہے۔ اسے ایسا جادو بھی کہا جاتا ہے جسے ”کالے علم“ والے دوسرے انسانوں کی تباہی کےلئے استعمال کرتے ہیں۔ ایٹم بم شاید ایسے ہی کسی علم کی بدولت دریافت ہوا تھا۔
یہ کالم لکھتے وقت مگر میرے ذہن پر تباہ کن ہتھیار تیار کرنے والا علم سوار نہیں ہے۔ پریشان علم کی اس قسم نے کر رکھا ہے جو انسانی نفسیات کو گویا خوردبین سے مسلسل دیکھتے ہوئے اس کے ہر پہلو کا بغور جائزہ لیتی ہے۔ انسانی دلوں میں چھپے جذبات کو پوری طرح جان لینے کے بعد کچھ ایسے طریقے ایجاد کئے جاتے ہیں جو ذہنوں پر قبضہ جمانے کی کوشش کرتے ہیں۔ انہیں وہ فیصلہ کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں جو ان کا اپنا نہیں کسی ”عامل“ کا مسلط کردہ ہوتا ہے۔
دُنیا بھر میں جمہوری نظام کی اصل قوت ”ووٹ“ کو سمجھا جاتا ہے۔ یہ باور کر لیا گیا ہے کہ مختلف سیاسی جماعتیں اور رہ نما اپنے اپنے پیغامات کے ساتھ خلقِ خدا سے رابطہ کرتے ہیں۔ عوام ان کی سب کی باتیں بہت غور سے سنتے ہیں۔ بالآخر انتخاب کے دن پولنگ بوتھ میں اکیلے بیٹھے یہ طے کر دیتے ہیں کہ ان کی دانست میں کونسی جماعت ان کے مسائل کو حقیقی طور پر سمجھتے ہوئے بہت خلوص کے ساتھ انہیں حل کرنا چاہتی ہے۔
بظاہر اپنے ”حق“ کو بہت سوچنے اور غور کرنے کے بعد کوئی فرد استعمال کرتے ہوئے اپنی پسند کی جماعت یا رہ نما کو اقتدار میں لانے کا سبب بن جاتا ہے۔ حقِ رائے دہی اور اس کے آزادانہ استعمال ہی نے مجھ ایسے لوگوں کو جمہوری نظام کا اس کی تمام تر خامیوں کے باوجود پرستار بنائے رکھا ہے۔
Brexit اور ٹرمپ کے انتخاب نے البتہ اپنی سوچ پر سوالات اٹھانے کو مجبور کر دیا ہے۔ مودی کا ذکر اس لئے نہیں کیا کہ پاکستانی ہوں۔ اس کی انتخابی فتوحات کا انتہائی غیر جانبداری اور ٹھنڈے دل کے ساتھ بھی جائزہ لوں تو کہیں نہ کہیں میرا قومی تعصب رائے بنانے پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔
Brexit اور ٹرمپ کے انتخابات کے بعد سے میں بڑی لگن کے ساتھ عالمی اخبارات میں ایسے مضامین تلاش کرتا رہتا ہوں جو مجھے کسی صورت یہ سمجھا سکیں کہ کسی ملک کی بے پناہ اکثریت تقریباً جنونی کیفیات میں مبتلا ہو کر ووٹ دینے کے ”انفرادی حق“ کو استعمال کرتے ہوئے ٹرمپ جیسے مسخرے کو ایک سپرطاقت کا سربراہ کیوں منتخب کر دیتی ہے۔ عوام کی ”بھرپور حمایت“ سے وہ شخص اب ایک ایسے عہدے پر فائز ہے جو اسے اپنے ملک ہی میں نہیں پوری دنیا پر تباہی مسلط کر دینے کا اختیار بھی فراہم کرتا ہے۔
انتخابی عمل کے ذریعے لوگوں کے ذہن پر اثرانداز ہوتے ہوئے ان سے اپنی پسند کے فیصلے لینے کی مہارت بھی میری نظر میں ”کالا علم“ ثابت ہو رہی ہے۔ میں علم کی اس قسم کو کم از کم پوری طرح سمجھنا ضرور چاہتا ہوں۔ اس کا توڑ ڈھونڈنا اگرچہ میرے بس کی بات نہیں۔
انسانی ذہنوں پر ایک حوالے سے سحر طاری کرتے ہوئے ان سے اپنی پسند کے فیصلے کروانے والے ”کالے علم“ کی تلاش کرتے ہوئے مجھے ایک مضمون کا پتہ چلاجو سوئٹزر لینڈ کے ایک جرمن اخبار میں آج سے کئی ماہ پہلے چھپا تھا۔ اس مضمون میں پولینڈ کے ایک نفسیات دان کا ذکر ہے جس کا نام Michal Kosinski ہے۔ کالج کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اسے برطانیہ کی شہرئہ آفاق کیمبرج یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کرنے کا وظیفہ مل گیا۔
ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے کےلئے اس نے اپنے لئے علمِ نفسیات کی اس شاخ کا انتخاب کیا جسے Big Data کہا جاتا ہے۔ اس کے ذریعے نفسیات دان بنیادی طور پر یہ معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ مثال کے طور پر صارفین کو ایک خاص برانڈ کا صابن دوسرے صابنوں کے مقابلے میں زیادہ پسند کیوں آتا ہے۔ بہت تحقیق کے بعد یہ طے ہو چکا ہے کہ صابنوں کی ساری قسمیں تقریباً ایک جیسی ہوتی ہیں۔ کوئی خاص برانڈ دوسرے پر سبقت حاصل کر لیتا ہے تو اس کی بنیادی وجہ یہ ہوتی ہے کہ اشتہارات کی بھرمار کے ذریعے صارفین کو قائل کر دیا جاتا ہے کہ صابن کی اس قسم میں کوئی ”خاص بات“ ہے جو ان کی کسی ”مخصوص ضرورت“ کو پورا کرتی ہے۔ بڑی اشتہاری کمپنیاں لہذا اپنا دھندا چلانے کےلئے Big Data جمع کر کے اس پر تحقیق کرنے والے ماہرین کو ڈھونڈ کر انہیں خطیر رقوم کے ساتھ اپنے لئے کام کرنے پر آمادہ کرنے کو بے چین رہتی ہیں۔
Big Data پر کام کرتے ہوئے Michal Kosinski نے بھی لوگوں کے دلوں میں جھانکنے کےلئے ایک سوالنامہ تیار کیا۔ اس سوال کو اس نے انتہائی معصومانہ انداز میں فیس بک پر ڈال دیا۔ آپ کو اکثر فیس بک پر ایسے سوالنامے دیکھنے کو ملتے ہیں جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کا جواب دے کر آپ یہ معلوم کر سکتے ہیں کہ آپ کی شخصیت جارحانہ ہے یا دوستانہ۔ وغیرہ وغیرہ۔ ہم میں سے اکثر شغل شغل میں ایسے سوالناموں کے جوابات مہیا کرتے ہوئے خود کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
Michal Kosinski کے تیار کردہ سوالنامے کو فیس بک صارفین کی ایک ریکارڈ تعداد نے سراہا۔ لاکھوں افراد سے حاصل کئے جوابات کے بعد پولینڈ سے آئے اور کیمبرج میں پی ایچ ڈی کرنے والے نفسیات دان نے انہیں بڑی محنت کے ذریعے انسانوں کو مختلف اقسام میں تقسیم کرنے کے پیمانے تیار کرنے کےلئے استعمال کیا۔ بالآخر اس نے اپنے پاس موجود Big Data کی بدولت یہ مہارت حاصل کر لی کہ کوئی بھی شخص اگر فیس بک پر پوسٹ ہوئی مختلف چیزوں کو کم از کم 68 مرتبہ Like کرے تو وہ یہ بتا سکتا ہے کہ وہ شخص کنوارہ ہے یا شادی شدہ یا اس کی دو سے زیادہ طلاقیں ہوئی ہیں۔ بات صرف یہاں تک محدود نہیں رہی Kosinski کا تیار کردہ پیمانہ آپ کو یہ بھی بتا دیتا ہے کہ مختلف فیس بک پوسٹ کو کم از کم 68 مرتبہ Like کرنے والا شخص انتخابات میں کونسی سیاسی جماعت یا رہ نما کی حمایت میں ہر صورت ووٹ ڈالے گا۔
ہزار ہا معصوم لوگوں نے فیس بک پر موجود مختلف Posts کو گویا محض68 مرتبہ Like کرنے کے ذریعے اپنے دلوں میں چھپائے کئی بھیدوں کو Kosinski جیسے ماہرین کے سامنے عیاں کر دیا۔ آپ کے دل میں چھپے بھید عیاں ہو جائیں تو ”عامل“ آپ کے ذہنوں پر اثر انداز ہونے کے راستے بھی ڈھونڈ لیتے ہیں۔ Strategic Communication ذہن سازی کے اس دھندے کا بارُعب نام ہے۔ Kosinski نے اپنے Big Data کو خود کےلئے استعمال نہیں کیا۔ اس کی مہارت کو مگر Cambridge Analytica نامی ایک فرم نے خوب استعمال کیا۔ شاید مجھے اب یہ بات لکھنے کی ضرورت نہیں رہی کہ اسی کمپنی نے Brexit کو کامیاب بنایا اور جی ہاں اسی کمپنی کی خدمات ٹرمپ نے بھی خطیر رقم خرچ کر کے استعمال کی ہیں اگرچہ وہ خود کمپیوٹر ہرگز استعمال نہیں کرتا۔ صرف اپنے سمارٹ فون کے ذریعے ٹویٹس کی بھرمار کئے رہتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...