اسلام آباد (سہیل عبدالناصر) پاکستان اور ایران کے دو طرفہ تعلقات سرد مہری کے دور سے گزر کر قدرے گرمجوشی کی منزل کی جانب بڑھ رہے ہیں اور دونوں ملکوں کے درمیان اعلیٰ سطح کے سیاسی روابط میں قابل قدر اضافہ ہوا ہے۔ دفتر خارجہ کے ذرائع کے مطابق پاک ایران تعلقات، سیاست و سفارت، معیشت، اور دفاع و سلامتی سمیت تمام شعبوں میں بہتری کی جانب گامزن ہیں اور اس پیشرفت کی رفتار کو برقرار رکھنے، اور غلط فہمیوں کا سبب بننے والے عوامل کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔ ایرانی فضائیہ کے سربراہ بریگیڈیئر جنرل حسن شاہ صفی کا حالیہ دورہ پاکستان ایسے ہی روابط کی اہم کڑی ہے۔ پاکستان، ایران کی فضائیہ کو تربیت دینے کا اہم ذریعہ رہا ہے۔ ایرانی فضائیہ اسی کی دھائی کے امریکی اور بعد ازاں چین و روس سے خریدے گئے اثاثوں کا مجموعہ ہے جب کہ جے ایف تھنڈر طیارے کی تیاری کی ابتدائی دنوں سے یہ اطلاعات گردش میں رہی ہیں کہ ایران، اس طیارے کی خریداری میں دلچسپی رکھتا ہے۔ اب اس طیارے کا بلاک تھری بھی تیار ہو چکا ہے اور باوثق ذرائع کے مطابق پاکستان کے دورے پر آئے ایرانی فضائیہ کے سربراہ کو جے ایف سیونٹین تھنڈر کی افادیت اور کم لاگت کے بارے میں تفصیل سے بتایا گیا۔ یہ دورہ اسلامی جمہوریہ ایران اور پاکستان کی عسکری اور دفاعی قیادت کے درمیان وفود کے تبادلوں کے سلسلے کی ایک کڑی ہے۔گزشتہ دسمبر میں پاکستان کے آرمی چیف چیف جنرل 'قمر جاوید باجوہ' نے ایرانی منصب میجر جنرل 'محمد باقری' کی دعوت پر تہران کا اہم دورہ کیا تھا۔ فوجی سفارت کاری نے دونوں ملکوں کے تعلقات پر جمی برف پگھلانے میں اہم کردار ادا کیا۔اس کے بعد دفاعی پیداوار کے وزیر 'رانا تنویر حسین' نے بھی ایران کا دورہ کیا. ان سے ملاقات کے بعد ایران کے سنیئر نائب ایرانی صدر 'اسحاق جہانگیری' نے کہا تھا کہ پاکستان کے ساتھ عسکری اور دفاعی تعاون کے فروغ کے لئے کوئی حد مقرر نہیں ہے. اس ذریعہ کے مطابق ایران پاکستان کا ایسا اہم مغربی پڑوسی ہے جسے پاکستان نہائت اہم شراکت دار سمجھتا ہے لیکن علاقائی سلامتی و سیاست کے چیلنجوں کے پیش نظر پاکستان تنی ہوئی رسی پر چل رہا ہے جو آسان کام نہیں۔ ایک طرف ایران سے سے اچھے تعلقات مطلوب ہیں لیکن درمیان میں پاک ایران گیس پائپ لائن کی عدم تکمیل کی رکاوٹ بھی حائل ہے اور ایران نے عالمی ثالثی عدالت میں جانے کی دھمکی دے رکھی ہے۔پاکستان کو تہران سے تعلقات بہتر کرتے ہوئے سعودی عرب کے ساتھ انتہائی قریبی تعلقات کو بھی ملحوظ رکھنا ہوتا ہے کیونکہ ان دونوں علاقائی حریفوں کے درمیان حد درجہ بد اعتمادی، پاکستان کیلئے مسلسل درد سر ہے۔ ایران کی تمام تر وضاحتوں کے باوجود ایران بھارت تعلقات ، پاکستان کیلئے ہمیشہ باعث تشویش رہے ہیں۔ خصوصاً بھارتی جاسوس کل بھوشن جادیو کے چاہ بہار میں قیام اور پاکستان مخالف اڈوں کے قیام نے جس بداعتمادی کو جنم دیا، وہ ٹھوس اقدامات کے ذریعہ ہی دور ہو سکتی ہے۔