پاکستان کی جمہوری اور پارلیمانی تاریخ میں میاں رضا ربانی کا نام آب زر سے لکھا جائے گا‘ماضی میں پارلیمان اور آئین پاکستان کو جب جب بالواسطہ اور بلا واسطہ زخم لگانے کی کوشش کی گئی‘ رضا ربانی کی توانا آواز گونج بن کر ابھری اور اُفق پر چھاگئی‘ سیاسی جوار بھاٹے اور افراتفری میں وہ ہمیشہ آئین کے محافظ بن کر سامنے آئے‘ پارلیمان کے حوالے سے انہوں نے ہمیشہ اُمید اور رجائیت کی بات کی اور پاکستان کے پنپنے کا لائحہ عمل ان کے نزدیک جمہوری عمل کی نگہداشت ہی رہا۔ رضا ربانی پارلیمانی تاریخ میں یوں بھی یاد رکھے جائیں گے کہ انہوں نے ہر غیر جمہوری دور اور ابتلا کے وقت میں اپنی حق پرست آواز کے ذریعے کسی ایک پارٹی کی نہیں ، پوری قوم کی ترجمانی کی۔ اس تناظر میں ان کی للکار پارلیمان کے اندر اور باہر اُسی طمطراق سے سنی گئی‘ جوان کی ہمیشہ سے روایت رہی ہے۔ وہ قائداعظم‘ لیاقت علی خان‘ مولوی تمیزالدین اور پھر ذوالفقار علی بھٹو کے بعد بے نظیر بھٹو شہید کے بھی صحیح معنوں میں جمہوری جانشین ثابت ہوئے۔
میاں رضا ربانی 12 مارچ کو چیئرمین سینیٹ کے عہدہ سے سبکدوش ہورہے ہیں۔ انہوں نے ایک کڑے وقت میں ایوان بالا کی باگ ڈور سنبھالی اور اپنے دورانئے میں مشکل ترین حالات کا مقابلہ بھی کیا‘ وہ حقیقتاً سینیٹ کے بالا اتفاق چیئرمین رہے۔ اگرچہ ان کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی سے تھا لیکن انہوں نے جماعتی مفادات سے بالاتر ہو کر غیر جانبداری کے ساتھ ایوان چلایا‘ پارلیمان کے اندر اور باہر تمام غیر جمہوری ذہنوں کے خلئے ان کی آواز کے سامنے بے سدھ ہو جاتے تھے۔ وہ کڑے سے کڑے وقت میں بھی اپنے راستے سے بھٹکے ‘ نہ انہوں نے اپنے جمہوری نصب العین سے روگردانی کی۔ آئین اور قانون کے محافظ ہونے کے ناطے وہ پارلیمان کے دونوں ایوانوں کی آنکھوں کا تارا رہے۔ ان کی گفتگو میں پاکستانیت جھلکتی ہے‘ سو پارلیمان بھی ان کے نطق کا اعجاز لے کر اپنا جمہوری کردار ادا کرتا رہا۔ رضا ربانی کا اعزاز ہے کہ انہوں نے سینیٹ آف پاکستان کے ایوان کو متفقہ اور باہمی یگانگت کی طرز پر چلایا اور ایسی ایسی پارلیمانی روایات بنائیں جو بعد کے آنے والوں کے لیے مشعل راہ ہونگی۔ ان کا قد کاٹھ ایوان نے ہمیشہ بلند وبالا رکھا۔ سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر راجہ ظفر الحق نے بھی رضا ربانی کے ساتھ حتی المقدور تعاون اور بھائی چارے کی فضا قائم رکھی۔ حکومتی وزراء ایوان بالا کے سامنے جواب دہ رہے اور جہاں کہیں روایات سے روگردانی ہوئی اس کی اصلاح احوال پوری جمہوری ذمہ داری سے ہوئی۔ یہ سب رضا ربانی کا طلسم تھا کہ اپنے پرائے سب ان کے معترف رہے۔
بحیثیت چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے جو بھی نئی جمہوری اختراعات کیں اور پرانی روایات کو زندہ وجاوید بنایا‘ آج ان کو ستائش کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔ اس ضمن میں ان کی اختراع کردہ ایک نئی خوشگوار روایت سردست سامنے آئی ہے اور وہ یہ کہ اپنے منصب کی میعاد پورا ہونے سے کچھ روز پہلے انہوں نے غیر ملکی سربراہوں اور دیگر اعلیٰ عہدیداروں کی جانب سے ملنے والے تحائف کی پوری فہرست ایوان بالا کی ویب سائٹ پر جاری کر دی ہے اور اس میں یہ اعلان بھی شامل ہے کہ مذکورہ تحائف کی قیمت سٹیٹ بنک آف پاکستان میں جمع کرا دی گئی ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ کسی مقتدر شخصیت نے غیر ملکی عہدیداران سے ملنے والے تحائف کی فہرست مشتہر کی اور یہ اعلان بھی کیا کہ بنک دولت پاکستان میں ان کی قیمت بھی ادا کر دی گئی ہے۔ دوسری طرف دیکھیں تو منفی روایات بنانے والوں نے ترکی کی خاتون اول سے زلزلہ زدگان کو ملنے والا بیش بہا ہار ہی ڈکار لیا تھا۔ میڈیا میں اس کا شور وغوغا ہوا تو اس بڑی شخصیت کو یہ ہار اپنی بیگم صاحبہ سے لے کرواپس سرکاری خزانے میں جمع کرانا پڑا۔ یہ تو ایک منفی مثال ہے، اس قسم کی منفیت سے لبریز واقعات ہماری حکومتی روایات اور راہداریوں میں بکھرے پڑے ہیں‘ جن کو ملاحظہ کرتے ہوئے ہمارے سر ندامت سے جھک جاتے ہیں اور زبان پر تاسف کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ ایسے میں رضا ربانی کا شفافیت سے لبریز طرز عمل بارش کے اس قطرے کی طرح ہے جو بنجر اور پتھریلی زمین پر نوید صبح بن کرگرتا اور پھر اپنے نتائج و عواقب خود مرتب کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ بلاشبہ یہ ایک مثالی اقدام ہے اور قابل تقلید بھی۔ یہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر ہم آنے والی نئی پود کو بھی تابندگی کا راستہ دکھا سکتے ہیں۔ بات عدلیہ اور تفتیشی اداروں کے احتسابی عمل کی نہیں‘ قضیہ دراصل چہار جانب ذاتی مفادات کی خاطر اختیارات کے ناجائز استعمال اور مالی بدعنوانیوں کی ہے‘ جو چہارسو پھیلا ہوا ہمارا قومی المیہ بن گئی ہیں۔ اس کے برعکس میاں رضا ربانی نے اپنے ذاتی کردار کی جو شفافیت من وعن ہمارے سامنے پیش کر دی ہے ‘ اُس پر انہیں سیلیوٹ کرنے کو جی چاہتا ہے۔
روشنی اور زندگی ساتھ ساتھ چلنی چاہیے۔ یہ دونوں جب بھی اپنے راستے بدلتی ہیں‘ راہیں تاریک سے تاریک ہوتی چلی جاتی ہیں۔ میاں رضا ربانی ایسے سنہرے لوگوں کو تاریخ اپنے اوراق پر ہمیشہ ٹٹولتی رہی ہے‘ اب بھی یہ لوگ اگر خال خال موجود ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ روشنی اور زندگی کا کہیں نہ کہیں ساتھ اور اکٹھ موجود ہے‘ ورنہ ساغر صدیقی نے چراغ طور روشن کرنے کی بات یوں تو نہیں کی تھی اور انہوں نے یہ بھی کہا تھا ابھی تو صبح کے ماتھے کا رنگ کالا ہے‘ ابھی فریب نہ کھاؤ بڑا اندھیرا ہے۔ یقیناً رضا ربانی کے کردار کو رول ماڈل بناکر اگر ان کے پیروکار پیداہو جائیں تو زندگی اور روشنی دونوں بہت قریب آجائیں گی‘ اتنے قریب کہ پھر اندھیرے خود روشنی تلاش کرتے رہیں گے۔ رضا ربانی تم اللہ کی پناہ میں رہو‘ سلامت رہو کہ جب بھی ہمارے دلوں کا یاس کلبلا کر ماتم بننے لگتا ہے تو تمہاری دی ہوئی رجائیت ہمارے کام آجاتی ہے۔ تم نے جو بھی درخشندہ روایات بنائیں ہمارا فرض ہے کہ وہ دلوں کے نہاں خانوں میں رکھنے کے بجائے لوگوں کے طرز عمل میں آئیں۔ تم جمہوری ایوان میں اُمید کی کرن بن کر چمکے‘ جمہوریت کو پاسدار اور پارلیمان کو حقیقی معنوں میں نگہبان میسر آیا‘ لیکن ہمیں یقین ہے تمہارے بعد اندھیرا نہیں اُجالا ہے‘ اللہ تمہاری عمر اور مساعی میں برکت کرے اور تم بھی دیکھو اس پودے کو جو دو کونپلیں نکال کر تناور درخت بن جاتا ہے۔ رضا ربانی تم روشنی کا مینار ہو ان گئے گزرے لوگوں کے لیے جوہر آن برے خواب دیکھتے ہیں‘ جمہوریت پر شب خون مارنے والوں کے قیافے لگاتے رہتے اور پارلیمان کی بالادستی کو مشکوک بنانے والوں کے چہروں کو پڑھتے رہتے ہیں‘ تم نے جو راستہ دکھایا وہ جمہوریت پر شب خون مارنے والوں کو مات دینے کے لیے کافی ہے‘ بشرطیکہ تمہاری تقلید میں ہر درد مند اور محبت وطن پاکستانی دو قدم آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کرے۔ رضا ربانی تم پارلیمان کے ایوان بالا کی سربراہی سے سبکدوش ہورہے ہو‘ ہمارے دلوں سے نہیں‘ ہم تمہیں کیوں نہ یاد رکھیں‘ تم ہمارے دلوں پر راج کرتے رہو گے ۔