اسلام آباد(سٹاف رپورٹر)ترجمان دفتر خارجہ نے بتایا ہے کہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس نے پاکستان کی طرف سے انسداد منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کے مالی وسائل کی روک تھام کے فریم ورک میں بعض نقائص کی نشاندہی کی ہے ۔ ان نقائص کو دور کرنے کیلئے مزید اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ پریس بریفنگ میں ترجمان نے کہا کہ جون میں پاکستان کا نام فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی گرے لسٹ میں ڈال دیا جائے گا تاہم پاکستان کو بلیک لسٹ میں ڈالنے کی اطلاعات صریحاً غلط ہیں کیونکہ بلیک لسٹ میں ان ملکوں کا نام رکھا جاتا ہے جو ادارے سے تعاون نہیں کرتے اس کے برعکس حکومت پاکستان نے حالیہ برسوں میں ان مسائل کو حل کرنے کیلئے قانون سازی ، انتظامی اور ادارہ جاتی انتظامات کئے ہیں جنہیں اور مضبوط بنایا جائے گا۔ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے اجلاسوں کی کارروائی خفیہ ہوتی ہے چنانچہ وہ اس معاملہ پر مزید روشنی نہیں ڈال سکتے البتہ پاکستان ایف اے ٹی ایف سے ہر ممکن تعاون کرے گا ۔انہوں نے ایف اے ٹی ایف کے تمام معاملات کو حساس قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس حوالے سے معاملات وزارت خزانہ انجام دے گی۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ افغان مسئلہ کا سیاسی حل ہی ممکن ہے۔ افغانستان مین سترہ سالہ فوجی مہم جوئی ناکام رہی ہے بلکہ اس کے نتیجہ میں صورتحال مزید خراب ہوئی ہے۔ پاک امریکہ تعلقات کے حوالہ سے ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ امریکی حکومت کے مختلف محکموں کی طرف سے الگ الگ سگنل موصول ہو رہے ہیں۔ پاکستان،امریکہ کے ساتھ تعاون کی مشترکہ بنیادیں تلاش کرنے کا خواہاں ہے اور اس سمت میں تعلقات کی بہتری کیلئے کوشاں رہے گا۔ سینئرامریکی سفارت کار لیزا کرٹس کی سیکرٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ کے ساتھ حالیہ ملاقات کا مقصد، افغانستان میں پائیدار امن کے قیام کی راہیں تلاش کرنا ہے۔ روم کے کیتھولک چرچوں میں سرخ چراغاں کا مقصد دنیا بھر میں مسیحوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرنا تھا۔ یہ اقدام کسی خاص ملک کے بارے میں نہیں تھا۔سعودی عرب کی اعلیٰ فوجی قیادت میں تبدیلیوں کے بارے میں ترجمان نے کسی تبصرہ سے انکار کر دیا۔برطانیہ کے یورپی یونین سے اخراج کے باجود، پاکستان کیلئے برطانوی منڈیوں میں جی ایس پی پلس کا درجہ برقرار رہے گا۔ ایک استفسار پر ترجمان نے بتایا کہ سپریم کورٹ کے حکم پر حسین حقانی کی گرفتاری کیلئے انٹرپول سے رجوع کیا گیا ہے اور اس حکم کی تعمیل میں دفتر خارجہ ہر ممکن تعاون کرے گا۔ انھوں نے کہا کہ بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی پر تشویش ہے جبکہ بھارتی آرمی چیف کے بیانات جنگی دماغ کا اظہار کرتے ہیں۔ بھارت کے جنگی جنون پر پاکستان صبر کا مظاہرہ کرتا ہے لیکن پاکستان کی مسلح افواج ہر طرح کی جارحیت کا بھرپور جواب دینے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ کابل میں پاک بھارت سفارت کاروں کی ملاقات کا کوئی پروگرام نہیں تھا۔ بھارتی سیکریٹری خارجہ کے مستقبل میں دورہ پاکستان کا ا علم نہیں ہے۔ پاکستان بھارت کی جیلوں میں بزرگ قیدیوں کی رہائی کی تجویز کا وزارت داخلہ جائزہ لے رہی ہے۔ سارک پروگرام کے تحت اکیس پاکستانی طلبہ کو بنگلہ دیش کے میڈیکل کالجوں میں داخلہ کیلئے ویزا جاری نہ ہونے کے معاملہ کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔افغانستان میں امن طالبان کے ساتھ مذاکرات ہی سے ممکن ہے اور پاکستان طالبا ن کے ساتھ مذاکرات کا حامی ہے۔ عسکری کارروائیوں سے مسئلہ کشمیر کا حل ممکن نہیں۔ پاکستان گرے لسٹ میں آگیا ہے لیکن بلیک میں آنے کا ابھی کوئی خدشہ نہیں۔ انڈین موشن پکچر ایسوسی ایشن کی جانب سے پاکستانی فنکاروں پر پابندی کے حوالے سے انہوںنے کہا کہ پاکستانی فنکاروں پر پابندی بھارتی بیمار ذہنیت کی عکاس ہے، ایسی دھمکیوں پر ہم صبر کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ انکے بیانات جنگی ذہنیت کے عکاس ہیں۔ یہ بھارتی ڈیموکریسی نہیں شیموکریسی ہے۔ بین الاقوامی برادری کو مسئلہ کشمیر پر اپنا کردار ادا کرنا چاہئے، بھارت حالیہ سال کے دوران 400 سے زائد مرتبہ فائربندی کی خلاف ورزی کرچکا ہے، قومی سلامتی کمیٹی نے خارجہ پالیسی میں تبدیلی کا کہا ہے۔ کمیٹی نے ریجنل ممالک کے ساتھ تعاون بڑھانے کا بھی کہا ہے، دیکھیں گے کن علاقائی ممالک سے تعاون بڑھانے ہیں۔ ڈاکٹر فیصل نے کہا کہ آسیہ بی بی کے مقدمہ پر جی ایس پی سٹیٹس کے حوالے سے یورپی یونین کی کسی دھمکی کا کوئی علم نہیں ہے۔ امریکا سے مطالبہ کیا ہے پاکستان کو حقائق پر مبنی ایسی انٹیلی جنس رپورٹس دی جائیں جن کی بنیاد پر کوئی کروائی کی جا سکے۔