چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کی تقرری کے کیس میں ریمارکس دیئے ہیں کہ پولیس کا کام کسی سیاسی مداخلت کے بغیر ہونا چاہیے،ہم یہ بات نہیں مان سکتے کہ آپ جب چاہیں آئی جی کا تبادلہ کردیں،سماعت 7 مارچ تک ملتوی ۔ جمعرات کو سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل تین رکنی بینچ نے آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کی تقرری سے متعلق کیس کی سماعت کی جس میں سندھ حکومت کے وکیل فاروق ایچ نائیک عدالت میں پیش ہوئے۔دوران سماعت چیف جسٹس نے سندھ حکومت کے وکیل سے استفسار کیا کہ اے ڈی خواجہ سے کیوں پریشان ہیں؟ ان کی تعیناتی کے کتنے دن رہے گئے ہیں جو آپ پریشان ہیں؟اس پر فاروق نائیک نے جواب دیا کھل کرکہتا ہوں کہ اے ڈی خواجہ سے کوئی پریشانی نہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ کوئی پریشانی نہیں تو اس کیس کو 2سال کے لیے ملتوی کردیتے ہیں، فاروق نائیک نے جواب دیا کہ آپ ملتوی کردیں، میں قانون کی بات کررہاہوں۔فاروق نائیک نے موقف اپنایا کہ سپریم کورٹ پارلیمنٹ کے قانون سازی کے اختیار پر قدغن نہیں لگا سکتی، پارلیمنٹ نے اختیار صوبائی حکومت کو دیاہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ صوبے میں اہم عہدوں پر افسران کی تقرری کی میعاد3 برس ہے، لگتا ہے سندھ ہائیکورٹ نے یکسانیت پیدا کرنے کے لیے آئی جی کی مدت بھی 3 سال کردی ہے۔جسٹس ثاقب نثار نے استفسار کیا کہ آئی جی کو صوبائی حکومت کے کہنے پر ہٹا دیاجائے یہ صوبے کے مفاد میں ہوگا؟ پولیس کا کام کسی سیاسی مداخلت کے بغیر ہونا چاہیے، ہم یہ بات نہیں مان سکتے کہ آپ جب چاہیں آئی جی کا تبادلہ کردیں۔سندھ حکومت کے وکیل نے کہا کہ پولیس کے حوالے سے 4 قوانین ہیں جو ایک دوسرے سے متضاد ہیں، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے 1861 کا قانون ریوائز کردیا ہے، مجھے موقع ملا تو پولیس کا یونیفارم لاو ہوگا۔بعد ازاں عدالت نے کیس میں اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کرتے ہوئے مزید سماعت 7 مارچ تک ملتوی کردی۔