حمید نظامی مرحوم، ہر دور میں، ہر حال میں زندہ رہوں گا

معروف شاعر، خطیب، صحافی اور مقرر آغا شورش کاشمیری مرحوم نے کہا تھا کہ ہر دور میں ہر حال میں زندہ رہوں گا۔۔۔ تاریخ میرے نام کی تعظیم کرے گی، تاریخ کے اوراق میں آئندہ رہوں گا۔ آغا شورش کاشمیری کا یہ شعر بانی نوائے وقت تحریک پاکستان کے کارکن اور مسلم سٹوڈنٹ فیڈریشن کے بانی صدر حمید نظامی مرحوم پر بالکل لاگو ہوتا ہے۔ گزشتہ روز حمید نظامی مرحوم کی 57ویں برسی ملک بھر میں انتہائی عقیدت و احترام کے ساتھ منائی گئی۔ حمید نظامی مرحوم کی شخصیت نے پاکستان کی سرحدوں کے اندر آزادی صحافت کے لئے جو کردار ادا کیا وہ پاکستان میں کسی دوسرے صحافی کی شاید حصے میں نہیں آ سکتا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ایوب خان نے جب پہلی مرتبہ پاکستان میں مارشل لاء نافذ کرتے ہوئے خود کو صدرپاکستان بنا لیا تو حمید نظامی مرحوم پاکستان کے وہ پہلے صحافی تھے جنہوں نے فوجی آمر کے سامنے کلمہ حق کہنے کی طرہ ڈالی اور اپنی جرات رندانہ سے اور اپنی تحریروں کے ذریعے فوجی آمریت کو للکارا۔ حمید نظامی مرحوم نے قیام پاکستان کے بعد سب سے پہلے یہ آواز اپنے صحافتی قلم کے ذریعے بلند کی کہ پاکستان میں دو پارٹیاں ہونی چاہئیں یعنی ٹوپارٹی سسٹم رائج ہو۔ انہوں نے قیام پاکستان کے بعد خود کو پاکستان کی خالق جماعت مسلم لیگ سے الگ ہونے کا اپنے اداریے کے ذریعے اعلان کیا اور پھر اس وقت کی حکمران جماعت مسلم لیگ کو باور کروایا کہ ملک میں جمہوریت کی مضبوطی، فراوانی کے لئے ہر حال میں ٹوپارٹی سسٹم کو رائج کیا جائے۔ ممتاز دولتانہ جب پاکستان ون یونٹ تھا تو انہوں نے وزیراعلیٰ کی حیثیت سے نوائے وقت کا ڈکلیریشن منسوخ کرتے ہوئے نوائے وقت کی اشاعت پر پابندی عائد کر دی۔ جس پر حمید نظامی مرحوم نے نوائے پاکستان اور جہاد کے نام سے اخبارات کا اجراء کیا جن کی پیشانی پر درج ہوتا تھا کہ آپ انہیں نوائے وقت سمجھ کر ہی پڑھیں۔ حمید نظامی مرحوم نے ممتاز دولتانہ کو ابلیس سیاست کا بھی خطاب دیا اور پھر ملک میں جمہوریت ، جمہوری اداروں کی مضبوطی کے لئے سینہ سپر رہے۔ وہ ایوب خان کی فوجی آمریت میں بیوروکریسی کو سیاسی معاملات سے دور رکھنے کا مشورہ دیتے رہے اور اپنے اداریوں میں باور کرواتے رہے کہ اگر بیوروکریسی کو سیاسی ڈگر پر لایا گیا تو اس کے مستقبل میں انتہائی مہلک اثرات سامنے آئیں گے۔ آج ہماری ہر حکومت، ہر سیاسی جماعت یہ شکوہ اور شکایت کرتی نظر آتی ہے کہ بیوروکریسی سیاسی طرز پر چل نکلی ہے۔ دراصل حمید نظامی مرحوم کیونکہ خود تحریک پاکستان کے کارکن بھی تھے اور مسلم سٹوڈنٹ فیڈریشن کے بانی صدر کی حیثیت سے انہوں نے بانی پاکستان حضرت قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت میں براہ راست کام کیا تھا اس لئے وہ جانتے تھے کہ پاکستان کو مستقبل میں سیاسی نوآموز شخصیات، جاگیردار اور وڈیرے کس انداز میں نقصان پہنچا سکتے ہیں اسی لئے انہوں نے پاکستان میں نوائے وقت کے ذریعے سب سے پہلے پاکستان کی خالق اور حکمران جماعت مسلم لیگ کے خلاف اپوزیشن کا کردار ادا کیا۔ تاریخ کے اوراق کی صورت میں آج بھی بانی نوائے وقت کے اداریے محفوظ ہیں جن سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وطن عزیز پاکستان میں آزادی صحافت اور جمہوریت کی فراوانی و مضبوطی کے لئے حمید نظامی کیسا کلیدی کردار ادا کرتے ہوئے ایوب خان کی فوجی آمریت کی گھٹن میں دل کا دورہ پڑنے کے باعث اپنے خالق حقیقی سے جا ملے اور انہیں شہید صحافت کا خطاب ملا۔ آج کے اس دور میں جبکہ صحافت کے کئی زینے دریافت ہو چکے ہیں۔ پرنٹ میڈیا سے الیکٹرانک اور ڈیجیٹل میڈیا کی طرف صحافت فروغ پا چکی ہے لیکن صحافت کے ناقدین کی تعداد میں بھی متواتر اضافہ جاری ہے۔ صحافت محض ایک پیشہ یا کاروبار نہیں بلکہ یہ نظریہ اور ملک کی اساس و بقاء کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے۔ بانی پاکستان حضرت قائداعظم محمد علی جناح نے بلاجواز صحافت کو ریاست کا چوتھا ستون قرار نہیں دے رکھا۔ لہٰذا حمید نظامی مرحوم کی برسی پر آج شعبہ صحافت سے وابستہ سینئر احباب اور نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ ان کی شخصیت کے احاطے کے لئے ان کی شخصیت سے متعلقہ کتب، مضامین اور ان کے اداریوں کا بغور خاص مطالعہ کریں اور خود کو موجودہ دور میں صحافت کے ذریعے صحافت کے ایسے سپاہی بنائیں جس سے معاشرے میں مثبت روایات کا ازسرنو کردار اجاگر ہو سکے اور معاشرے میں بڑھتی ہوئی تفریق اور سیاسی نفرتوں کو ملکی یکجہتی اور سالمیت کے دھارے میں لایا جا سکے۔ اس وقت جبکہ بھارت مودی سرکار کی صورت میں پاکستان پر جنگ مسلط کرنے کے جنون میں مبتلا ہے اور بلاشبہ پاکستانی فوج جواب دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے ایسے میں صحافیوں کو حمید نظامی کی جلائی ہوئی شمع کو مشعل کے طور پر تھامنا ہو گا۔

ای پیپر دی نیشن