ہمارا مسئلہ فیصلہ حق میں آئے تو ٹھیک، جھوٹے گواہوں کا ریکارڈ مل جاتا ہے: چیف جسٹس

لاہور+اسلام آباد(وقائع نگار خصوصی+ صباح نیوز)سپریم کورٹ نے 19 سال بعد سزائے موت کے ملزم کی سزا عمر قید میں تبدیل کر دی۔ عدالت نے قرار دیا ہے کہ ملزم عمر قید سے زائد عرصہ کی سزا کاٹ چکا ہے لہذا اسے رہا کیا جائے ۔جسٹس منظور احمد ملک کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے سزائے موت کے ملزم غلام علی کی اپیل پر سماعت کی ۔ 2004 میں ضلع چنیوٹ کی سیشن عدالت نے سالی روبینہ کے قتل کے الزام میں غلام علی کو سزا موت کا حکم دیا2010 میں لاہور ہائیکورٹ نے سیشن عدالت کا حکم برقرار رکھتے ہوئے سزائے موت کا حکم دیا ۔وکیل نے عدالت کو بتایا کہ روبینہ کو ایک فائر لگا جس سے ملزم کی قتل کرنے کی نیت صاف واضح نہیں ہوتی ہے جبکہ مقتول روبینہ کی میڈیکل رپورٹ ایف آئی آر شہادتوں میں تضاد پایا جاتا ہے۔ دیگر ملزمان کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کیا گیا ہے۔ دوسری جانب سپریم کورٹ نے 10سال بعد قتل کے مقدمہ میں نامزد ملزم محمد رضوان کی رہائی کا حکم دے دیا ۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے ملزم کی اپیل پر سماعت کی۔محمد رضوان سمیت دیگر ملزموں پر جاوید سلیمان کو 2009 میں قتل کرنے کا الزام تھاجائیداد کے تنازعہ پر جاوید سلیمان کو ضلع بھکر کی تحصیل کلور کوٹ میں قتل کیا گیا ۔چیف جسٹس نے کہا کہ ملزم کی میڈیکل رپورٹ کی مطابق ایف آئی آر اور عینی شاہدین کے بیانات میں تضاد ہے۔مقتول کے وکیل نے کہا کہ پولیس نے اس مقدمے میں حقائق چھپائے۔چیف جسٹس نے کہاکہ اگر آپ نے پولیس کو بے ایمان کہا تو کیا پولیس بے ایمان ہوگئی،یہی مسئلہ ہے ہمارا کہ فیصلہ حق میں آئے تو ٹھیک ہے جب جھوٹے گواہ بن جائیں تو کہیں نہ کہیں ریکارڈ سے پتہ چل جاتا ہے ۔

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...