دوحہ+ واشنگٹن (صباح نیوز، این این آئی، نیٹ نیوز) 2001ء میں نیو یارک میں ہونے والے ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملے کے بعد شروع ہونے والی 19 سالہ افغان جنگ کے خاتمے کے لیے پاکستان کی کامیاب سفارتی کوششوں کے بعد امریکہ اور طالبان کے درمیان تاریخی معاہدہ طے پا گیا۔ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہونے والے اس امن معاہدے میں طالبان کی جانب سے ملا عبد الغنی برادر جبکہ امریکی نمائندہ خصوصی برائے امن زلمے خلیل زاد نے دستخط کیے۔ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہونے والی اس تقریب میں پاکستان کی نمائندگی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کی۔50 ممالک کے نمائندوں نے شرکت کی، معاہدے پر دستخط کے پیِشِ نظر طالبان کا 31 رکنی وفد بھی قطر کے دارالحکومت میں موجود تھا۔ حیران کن طور پر طالبان کی قید میں 3 سال رہنے والے آسٹریلین یونیورسٹی کے پروفیسر ٹموتھی ویکس بھی معاہدے کی تقریب میں شرکت کیلئے دوحہ میں موجود تھے۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے قطری وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ قطر حکومت نے معاہدے کو کامیاب بنانے کے لیے کردارادا کیا، امن معاہدہ مرحلہ وارمذاکرات کے نیتجے میں ممکن ہوا۔ امریکی سیکرٹری سٹیٹ مائیک پومپیو کا کہنا تھا کہ افغان عوام معاہدے پرخوشیاں منارہے ہیں، طالبان کے معاہدے پر عمل درآمد کو مانیٹر کرتے رہیں گے۔ طالبان تب مذاکرات کے لئے تیار ہوئے جب انہیں یقین ہونے لگا کہ لڑائی کے ذریعہ برتری ممکن نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ افغان اورامریکی فورسز نے امن کے لیے مل کرکام کیا۔ تاریخی مذاکرات کی میزبانی پرامیرقطرکے شکرگزارہیں۔ امریکی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ امن کے لیے زلمے خلیل زاد کا کردارقابل تعریف ہے۔ طالبان کے ساتھ دہائیوں کے بعد اپنے اختلافات ختم کررہے ہیں۔ دوسری طرف افغانستان میں امن کے قیام کے لیے امریکی سفارتکاروں کے ساتھ امن معاہدے سے قبل طالبان نے اپنے حامیوں کو ہر قسم کے حملے کرنے سے روک دیا ہے۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے رائٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ہم حکم دیتے ہیں کہ قوم کی خوشیوں کے لیے ہر قسم کے حملوں سے باز رہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سب سے بڑی چیز یہ ہے کہ ہمیں امید ہے کہ امریکہ مذاکرات اور امن معاہدے کے دوران اپنے وعدے پر قائم رہے گا لیکن غیرملکی افواج کے طیارے طالبان کے علاقوں پر پرواز کر رہے ہیں جو اشتعال انگیزی پر مبنی اقدام ہے۔ معاہدے سے قبل امریکہ اور افغان حکومت کا مشترکہ بیان جاری کیا گیا، جس میں کہا گیا کہ طالبان نے معاہدے پر عمل کیا تو امریکہ اور اتحادی 14 ماہ تک افغانستان سے تمام افواج نکال لیں گے۔ مشترکہ بیان میں مزید کہا گیا کہ امریکہ معاہدہ کے 135 دنوں کے اندر فوجیوں کی تعداد 8600 تک کم کرے گا، فوجیوں کا انخلاء طالبان کے معاہدے پر عمل در آمد سے مشروط ہوگا، افغان حکومت سلامتی کونسل کے ساتھ ملکر 29 مئی تک طالبان کے نمائندوں کے نام پابندیوں کی فہرست سے نکالے گی۔ قبل ازیں ممبر طالبان قطر آفس ملا شہاب الدین دلاور نے امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائے افغان امن زلمے خلیل زاد سے دوحہ کے مقامی ہوٹل میں ملاقات کی اور ہاتھ ملایا۔ زلمے خلیل زاد نے سوالوں کا جواب دینے سے گریز کیا جب کہ ملا شہاب کا کہنا تھا کہ آج بڑا تاریخی دن ہے، معاہدے پر دستخط کے بعد تمام غیر ملکی فوجی افغانستان سے روانہ ہو جائیں گے۔ طالبان رہنما کا مزید کہنا تھا کہ غیر ملکی فوجوں کے انخلاء سے ملک میں امن آئے گا اور افغان عوام اس معاہدے سے بہت خوش ہیں۔ دوسری جانب قطر میں طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین کا معاہدے سے قبل کہنا تھا کہ 7 روز میں افغانستان میں کوئی بڑا واقعہ نہیں ہوا، معاہدے پر دستخط ہونے کے بعد ہم آگے چلیں گے۔ ترجمان افغان طالبان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان ہمسایہ ملک ہے جس سے ہمارے ثقافتی اور تاریخی تعلقات ہیں، 40 سال سے 40 لاکھ افغان باشندے پاکستان میں تھے، اب بھی پاکستان میں 20 لاکھ افغان مہاجرین ہیں جب کہ روسی مداخلت کے وقت بھی پاکستان کا کردار رہا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے ہمیشہ افغان مسئلے کے پْرامن حل کی حمایت کی ہے، افغان طالبان چاہتے ہیں افغانستان امن کا گہوارہ بنے اور تجارت بھی ہو، ہم پاکستان سمیت تمام ہمسایہ ممالک سے اچھے تعلقات چاہتے ہیں کیونکہ اچھے تعلقات سب کے مفادات میں ہیں۔ سہیل شاہین نے کہا کہ کسی کو اجازت نہیں دیں گے کہ افغان سرزمین کسی اور کے خلاف استعمال کرے، سرحد سے باہر افغان طالبان کی کوئی پالیسی اور ایجنڈا نہیں ہے، امریکہ سے معاہدے میں یہ تمام باتیں شامل ہیں جس پر وہ پْرعزم ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغان عوام پر زور دیا ہے کہ وہ نئے مستقبل کے موقع سے فائدہ اٹھائیں۔ طالبان کے ساتھ معاہدہ افغانستان میں جاری جنگ کے خاتمے کی راہ ہموار کرے گا۔ تمام افغان قوتوں کو اس موقع کوغنیمت سمجھنا چاہیے۔ غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مزید کہا کہ یہ افغانستان کے عوام پر منحصر ہوگا کہ وہ اپنے مستقبل کا تعین کیسے کرتے ہیں۔ لہذا ہم افغان عوام سے گذارش کرتے ہیں کہ وہ امن اور اپنے ملک کے لیے ایک نئے مستقبل کے اس موقع سے فائدہ اٹھائیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر طالبان اور افغان حکومت اپنی ذمہ داریاں پوری کرتے ہیں تو ہم افغانستان میں جنگ ختم کرنے اور اپنے فوجیوں کو وطن واپس لانے کے لئے آگے بڑھیں گے۔ انہوں نے کہاکہ طالبان کے ساتھ معاہدے کے بعد افغانستان میں تعینات 16 ہزار امریکی فوج کی تعداد کم کرکے 8 ہزار 600 کردی جائے گی۔ اگر طالبان نے معاہدے کا احترام کیا تو امریکی فوج افغانستان سے مرحلہ وار مکمل طور پر نکل جائے گی۔ امریکہ اور طالبان کے درمیان19 سالہ جنگ کے بعد امن معاہدے کا مشترکہ اعلامیہ جاری کر دیا گیا۔ مشتر کہ ا علامیہ کے مطابق نئی افغان حکومت کی تشکیل تک زیر قبضہ علاقوں میں طالبان معاہدے کے اطلاق کے ذمہ دار ہونگے ، امریکہ معاہدے کے اعلان کے چودہ ماہ میں فورسز کو افغانستان سے نکال لے گا۔ تفصیلات کے مطابق امریکا افغان طالبان کے درمیان طے پانے والاامن معاہدہ چار حصوں پر مشتمل ہے جس میں کہا گیا کہ افغان سرزمین امریکا اور اس کے اتحادیوں کے خلاف کسی کو استعمال نہیں کرنے دی جائے گی، افغان طالبان 10 مارچ سے بین الافغان مذاکرات شروع کریں گے جس میں افغانستان سے غیر ملکی فوجوں کے انخلاء کے لئے گارنٹی ، میکنزم اور ٹائم لائن کا اعلان شامل ہوگا ، مستقبل اور جامع سیز فائر بین الافغان مذاکرات کا ایجنڈا اہم ہوگا ، جس کے بعد بین الافغان مذاکرات کے شرکاء افغانستان کے سیاسی روڈ میپ کے ساتھ اس کا اعلان باقاعدہ کرینگے ۔ مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ امن معاہدے کے مطابق امریکا کی جانب سے امارات اسلامیہ افغانستان کو بطور ریاست نہیں تسلیم کیا جاتا ، نئی افغان حکومت کی تشکیل تک زیر قبضہ علاقوں میں طالبان معاہدے کے اطلاق کے ذمہ دار ہونگے ، 14 ماہ کے اندر غیر سفارتی عملہ نجی سیکیورٹی کنٹریکٹرز اور ٹریزر بھی نکال لئے جائیں گے ۔ پانچ فوجی اڈوں سے بھی تمام فورس نکال لی جائیںگی ، امریکہ اور اتحادی باقی ساڑھے نو ماہ میں اپنی بقایا فورسز افغانستان سے نکال لیں گے ۔ امن معاہدے کے مطابق امریکہ اور اس کے اتحادی باقی فوجی اڈوں سے بھی اپنے فوجی نکال لیں گے ،10 مارچ تک افغان طالبان کے پانچ ہزار قیدی رہا کر دیئے جائیں گے اور افغان طالبان کی طرف سے ایک ہزار قیدی رہا کر دیئے جائینگے ۔ متعلقہ فریق اگلے تین ماہ میں بقایا رہ جانے والے قیدی بھی رہا کرینگے ۔ امن معاہدے کے مشترکہ اعلامیہ کے مطابق امریکہ امارات اسلامیہ افغانستان کے ارکان کو پابندی کی فہرست سے نکالنے کے لئے انتظامی نظر ثانی کرے گا ۔ ارکان کو پابندیوں کی فہرست سے نکالنے کا کام 29 مئی تک ہوگا ۔ امریکہ اور بعد از معاہدہ نئی افغان حکومت کے درمیان تعلقات مثبت ہونگے ۔ امریکہ بین الافغان تصفیہ کے بعد نئی افغان حکومت سے تعمیر نو کے لئے اقتصادی تعاون کرے گا اور افغان حکومت کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرے گا ۔ امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان امن معاہدے پر دستخط کے بعد ہال میں افغان طالبان وفد کی جانب سے اللہ اکبر کے نعرے لگائے گئے۔ تقریب میں شریک مختلف ممالک کے نمائندوں نے کھڑے ہوکر امن معاہدے کا خیر مقدم کیا۔ امن معاہدے کے بعد تقریب میں شریک رہنمائوں نے مبارکبادیں دیں۔ امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان امن معاہدے پر افغان شہروں میں جشن منایا گیا۔ عرب میڈیا کے مطابق افغانستان کے کئی شہروں میں عوام نے سڑکوں پر نکل کر جشن منایا اور امن معاہدے کا خیر مقدم کیا۔ شہریوں کا کہنا تھا کہ امن معاہدے سے افغانستان میں امن اور خوشحالی آئے گی۔ یورپی یونین نے امریکہ طالبان امن معاہدے کا خیر مقدم کیا ہے۔ یورپی یونین نے ردعمل میں کہا ہے کہ امریکہ اور افغان طالبان معاہدہ امن کی طرف اہم پیش رفت ہے۔
دوحہ، اسلام آباد، نیویارک، ریاض( نیٹ نیوز + نمائندہ خصوصی+سپیشل رپورٹ +آئی این پی ) قطر میں مقیم وزیرخارجہ شاہ محمودقریشی کا کہنا تھا کہ امریکہ اورافغان طالبان کے درمیان امن معاہدے سے خطے میں ترقی کی نئی راہیں کھلیں گی۔ افغانستان میں امن سے وسطی ایشیا کے ساتھ ہمارے روابط بڑھیں گے۔ وزیرخارجہ کا کہنا تھا کہ امن واستحکام سے پاکستان اورافغانستان کے درمیان دوطرفہ تجارت کو فروغ دینے کے لیے شاندار مواقع پیدا ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں امن سے پاکستان کو کاسا1000منصوبے سے استفادہ کرنے اور ملک میں توانائی کے بحران پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔ معاہدے سے افغانستان میں موجود 14 ہزار امریکی اور 17 ہزار نیٹو فوجیوں کے انخلاء کی راہ ہموار ہوگی۔ وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ امریکہ طالبان معاہدے سے بین الافغان مذاکرات کی راہ ہموارہوگی۔ ہفتہ کو امریکہ طالبان معاہدے کے حوالے سے اپنے بیان میں وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ افغان عوام کیلئے آج بڑادن ہے، پاکستان نے افغان امن معاہدے کیلئے اہم کردار ادا کیا، معاہدے سے بین الافغان مذاکرات کی راہ ہموارہوگی اور افغانستان امن واستحکام کی جانب گامزن ہوگا۔ ہفتہ کو وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے دوحہ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آج ایک اہم دن ہے، آج ایک اہم معاہدے پر دستخط ہوئے جس سے بین الافغان مذاکرات کی راہ ہموار ہو گی ، مجھے خوشی ہے کہ آج اس اہم موقع پر میں پاکستان کی نمائندگی کر رہا ہوں،خدا کا شکر ہے کہ پاکستان کی مخلصانہ کوششیں بارآور ثابت ہوئیں۔ انہوں نے کہاکہ امریکی وزیر خارجہ پومپیو سمیت پوری عالمی برادری افغان امن عمل میں پاکستان کے موثر، مثبت اور مصالحانہ کردار کو سراہ رہی ہے، اب اگلے مرحلے کی ذمہ داری افغانوں پر عائد ہوتی ہے انہیں آپس میں مل کر،مذاکرات کے ذریعے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنا ہے۔ تیس لاکھ افغانیوں کی میزبانی کر رہے ہیں۔ ہم نے افغان امن عمل میں بہت خلوص دل سے مصالحانہ کردار ادا کیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ہم امریکا اور طالبان کے درمیان ہونے والے امن معاہدے کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ ٹویٹ کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ یہ دہائیوں سے جاری جنگ اور افغان عوام کے مصائب کو ختم کرنے کے لئے امن و مفاہمتی عمل کا آغاز ہے ، میں نے ہمیشہ کہا کہ خواہ مسلہ کتنا ہی پیچیدہ کیوں نہ ہو امن کا بامعنی راستہ سیاسی حل ہے ، انہون نے کہا کہ تمام سٹیک ہولڈرز کو چاہیے کہ وہ معاملات بگاڑنے والوں کو دور رکھیں ،ئے، میری دعائیں افغان عوام کے ساتھ ہیں جنہوں نے گزشتہ 4 دہائیاں خونریزی کے دوران گزاریں۔ پاکستان نے امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان امن معاہدے کا خیر مقدم کیا ہے ترجمان دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدہ بڑی اہم پیشرفت ہے، امن معاہدے سے افغان مسئلے کا فوجی حل نہ ہونے کے پاکستانی موقف کی توثیق ہوئی ہے۔ وزیراعظم نے افغانستان کیلئے سیاسی حل کو واحد راستہ قرار دیا، سعودی عرب نے امریکہ افغان طالبان امن معاہدے کا خیر مقدم کیا ہے۔ سعودی عرب کا کہنا ہے کہ امریکہ طالبان معاہدے سے افغانستان میں دیرپا امن کی راہ ہموار ہو گی اور خطے میں بھی امن کا قیام ممکن ہوگا۔ سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ انتوینو گو تریس نے بھی امریکہ افغان طالبان امن معاہدے کا خیر مقدم کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ طالبان معاہدہ افغانستان میں دیرپا امن کی جانب اہم قدم ہے امریکہ طالبان معاہدے کے بعد بین الافغان مذاکرات کیلئے سازگار ماحول ہونا چاہئے ۔