برڈ فلو آیا، پولیو آیا، نگلیریا آیا، ڈینگی اور برڈ فلو آئے، سینکڑوں خود کش دھماکے ہوئے، ہزاروں لوگ شہید ہوئے۔ جس اللہ نے ان تمام وائرسوں اور دھماکوں سے محفوظ رکھا، وہی خدا کرونا وائرس سے بھی محفوظ رکھے گا۔ دیکھنے والی بات یہ ہے کہ کیا ہم اللہ کے ان احکامات کی پیروی کر رہے ہیں جن کی وجہ سے ہم ان تمام آفات سے بچ سکتے ہیں۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہمیں جو احکامات دیئے ہیں۔ کیا ہم ان کی حکم عدولی تو نہیں کر رہے؟ افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارے آئینہ دل فراش میں حکم عدولیوں کی لمبی فہرست نظر آئے گی۔ اللہ کے کلام میں واضح طور پر یہود و نصاریٰ پر اعتماد نہ کرنے کا حکم دیا گیا۔ ہم نے فلسطین اور کشمیر میں دیکھ لیا! عالمی ضمیر یہود ونصاریٰ کے پنجے میں پھڑپھڑا رہا ہے۔ اقوام عالم کو امن کا پیغام دینے والی اقوام متحدہ بھی ان کے دباؤ میں ہے۔
سات ماہ سے 80 لاکھ معصوم کشمیری ہندو بھیڑیوں کے قفس میں قید ہیں لیکن ہم سوئے ہوئے عالمی ضمیر کو جگانے کی ناکام کوشش میںلگے ہوئے ہیں۔اقوام متحدہ کا فورم ہو یا FATF کا، ہرجا باطل قوتیں باہمی اتفاق سے اکھٹی ہیں۔ اقوام متحدہ کو نہ تو کشمیر کی حق خوداردیت کی قرارداد نظر آتی ہے اور نہ ہی راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (RSS) کی بھارت میں بسنے والے مسلمانوں پر کئے جانے والے مظالم نظر آتے ہیں لیکن یہ حرف آخر نہیں۔ ہمارے مقتدر اداروں کو یہ سوچنا ہوگا کہ وہ کونسے عوامل ہیں جن کی وجہ سے پاکستان پر دیگر آفات کا بارہا حملہ ہوتا ہے۔ جب بھی کوئی وائرس پاکستان میں حملہ آور ہوا۔ اس کے پیچھے کوئی سازش کارفرما رہی ہے۔ پولیو مہم کے خلاف مخصوص عناصر کی طرف سے افواہیں گھڑی گئیں جن کی وجہ سے ان کے زیر اثر علاقوں میں پولیو کے کئی کیسز سامنے آئے لیکن آج تک ان عناصر کو قانون کے شکنجے میں نہیں کسا گیا۔ ڈینگی وائرس کے جرثومے بھی دریائے راوی میں سیلاب کے بعد بھارتی سرزمین سے وارد ہوئے تھے جس نے بڑی سرعت کے ساتھ پورے پنجاب کو اپنے دامن میں لپیٹ لیا تھا۔ آج ایران سے واپس آنے والے دو پاکستانیوں کی وجہ سے کرونا وائرس کی پاکستان میں آمد ہوئی ہے۔ اس بات کی تحقیق بھی ہونی چاہیے کہ یہ دونوں پاکستانی اس وائرس سے آلودہ کیونکرہوئے؟
ان تمام مسائل کو دیکھتے ہوئے ہمیں اس بات کا ادراک کرنا ہوگا کہ کیا ہمارے اداروں کی کارکردگی مایوس کن نہیں جو آنے والی آفات اور چیلنجز کو بھانپ بھی نہ سکیں۔ 1960ء کی دہائی میں پاکستانی ڈاکٹرز اور انجینئرز نے پوری دنیا میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھائے تھے۔ گلف ممالک میں جدید دور کی ترقی کی تمام تر بنیاد بھی پاکستانی ماہرین کے ہی سر ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ 1960-70ء کی دھائی میں جو پاکستانی ادارے اور ماہرین دنیا کی آنکھ کا تارا تھے، آج مسائل کی بھٹی میں سر پٹخ رہے ہیں؟ ان پچاس سالوں میں تو ہماری ترقی کو چار چاند لگ جانے چاہئیں تھے۔ ہماری انجینئرنگ اور میڈیکل کی یونیورسٹیز کو جدید دنیا میں اول استھان پر ہونا چاہیے تھا۔ آخر اس ترقی معکوس کی وجہ کیا ہے؟ اور کیوں ہمارے ادارے اپنی ناکامی کی وجہ سے قوم کیلئے کڑا امتحان بنے ہوئے ہیں؟
ایک وقت تھا جب پاکستانی ڈاکٹروں کا طوطی بولتا تھا۔ کڑی تربیت اور معیار کی جانچ کے بعد بھی مشقت کی کسوٹی میں پرکھ کر ڈگری دی جاتی۔ یہی وجہ تھی کہ یورپ کے معیاری ہسپتال بھی پاکستانی ڈاکٹرز کا احترام کرتے اور انہیں جائز مقام ملتا تھا۔ اعلیٰ تعلیم کے حصول کیلئے جانے والے ڈاکٹرز کیلئے کوئی بندش نہ ہوتی تھی۔ لیکن جب ان کی تربیت میں دولت کی چمک کو ملحوظ خاطر رکھا گیا۔ ایک ڈاکٹر بننے کیلئے چالیس پچاس لاکھ کی خطیر رقم بھی کم پڑ گئی تو ان کا مرتبہ بھی اپنا وقار کھو بیٹھا اور پھر ہمارے ہسپتال بھی محض so called شفاخانے بن گئے جہاں صرف نزلے، کھانسی اور بخار کے علاوہ کوئی علاج نہیں ہوتا۔ بڑے بڑے ٹیچنگ ہسپتالوں میں جب ان کی لیبارٹریز ناکارہ تصور ہوں۔
ان کے ٹیسٹ کو قابل اعتناء نہ سمجھا جائے اور محض کاروبار کرنے والی لیبارٹریز کے ٹیسٹ کو اہمیت دی جائے تو ان ہسپتالوں، ان اعلیٰ ڈگری کے حامل میڈیکل کالجز یونیورسٹیز کی صلاحیت و قابلیت محض عام امراض کے علاج تک محدود ہو جاتی ہے۔ ان میں کسی بڑے چیلنج کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رہتی۔ اس میں قصور ان اداروں میں کام کرنے والوں کا نہیں بلکہ اس نظام کا ہے جس میں اہل افراد کی بجائے اپنے پسندیدہ افراد کو پرنسپل کی کرسی پر بٹھا کر مسیحائی کے ان اداروں کو کسی بنیئے کی دکان بنا دیا۔ یہی وجہ ہے کہ ڈینگی وائرس ہو، برڈ فلو ہو یا اب کرونا وائرس! پورا پاکستان خوف میں ڈوب جاتا ہے کیونکہ پوری قوم جانتی ہے کہ مسیحائی کے ان اداروں میں کام کرنے والوں کے پاس کوئی ایسی لیبارٹری ہی نہیں جہاں ایسے وائرس کی جانچ تو بہت دور کی بات ہے، یہ روٹین کے کسی اہم ٹیسٹ کو بھی جانچنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔
متعلقہ اداروں کی ناکامی کی بڑی وجہ اقرباء پروری اور کرپشن ہے۔ کرپشن کے ناسور نے ان اداروں کو ہی نہیں پوری قوم کو تباہی کی پاتال میں دھکیل دیا ہے۔ ہر ادارے میں کرپٹ عناصر ایک مافیا کا روپ دھار چکے ہیں۔ اگر بھولے سے کوئی اجلے دامن کی خواہش رکھنے والا آڑے آ جائے تو اسے الزامات کے ملبہ تلے انکوائریز بھگتنا پڑتی ہیں۔ ان سے بھی بچ نکلے تو ڈیپارٹمنٹل ٹرانسفر آرڈر کی شکل میں ضلع بدری کا حکم صادر کر دیا جاتا ہے۔ اگر آج بھی ان اداروں کو تطہیری عمل سے گزارا جائے تو نہ صرف کرپشن کا خاتمہ ممکن ہوگا بلکہ یہ ادارے ایک مرتبہ پھر پاکستان کو ترقی کی بلندیوں پر لے جا سکتے ہیں۔
اداروں سے کرپشن کے خاتمہ کیلئے اینٹی کرپشن ڈیپارٹمنٹ میں بنیادی تبدیلیاں لانا ہوں گی۔ پسند و ناپسند کے مطابق اس ادارہ میں آفیشلز کی تعیناتی کیلئے صاف دامن والے افراد کو لایا جائے۔ اس مقصد کیلئے ایجنسیاں رپورٹ مرتب کریں کہ ان اداروں میں کون بہتر کارکردگی کے حامل ہیں جنھیں متعلقہ ادارے پر قابض مافیا نے قربانی کا بکرا بنانے کی کوشش کی اگر صاف دامن رکھنے والے افسران کو اداروں کی تطہیر کی ذمہ داریاں سونپی جائیں تو پھر کسی بھی آفت یا وائرس کا خاتمہ بآسانی کیا جا سکے گا۔پھر ہمارے ادارے اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کر سکیں گے۔
٭…٭…٭