اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایل این جی کیس میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئر نائب صدر شاہد خاقان عباسی اور نارووال سپورٹس کمپلیکس کیس میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال کو ضمانت پر رہا کر دیا ہے شاہد خاقان عباسی اورچوہدری احسن اقبال کی ضمانت پر رہائی کے بعد پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد محمد نواز شریف اور پارٹی کے صدر میاں شہباز شریف نے دونوں رہنمائوں سے الگ الگ ٹیلی فون پر رابطے کئے ہیں ۔انہیں ضمانت پر رہائی پر مبار ک باد دی اور ان کے عزم و حوصلہ کو سراہاہے ۔ انہوں نے کہا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کو دونوں رہنمائوں کے جرات مندانہ کردار پر فخر ہے انہوں نے جس جرات و استقامت سے اڈیالہ جیل کاٹی ہے اور نیب کے عقوبت خانے میں ایام گذارے ہیں اس سے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں کا حوصلہ بڑھا ہے یہ بات قابل ذکر ہے جس روز پاکستان مسلم لیگ(ن) کے ’’ناراض‘‘ رہنما چوہدری نثار علی خان برطانیہ کا دو ہفتے کا دورہ کر کے وطن واپس جا رہے تھے اسی روز قومی اسمبلی میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی لیڈر خواجہ آصف میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف سے ملاقات کے لندن پہنچ رہے تھے خواجہ آصف کی لندن میں میاں نواز شرف اور میاں شہباز شریف سے الگ الگ ملاقاتیں ہوئی ہیں ان ملاقاتوں کی تفصیلات تو منظر عام پر نہیں آئی ہیں لیکن باور کیا جاتا ہے خواجہ آصف نے ان سے پارٹی کے آئندہ لائحہ عمل پر بات چیت کی ہے اور میاں شہباز شریف کی وطن واپسی کے پرو گرام بارے میں استفسار کیا ہے ؟ شاہد خاقان عباسی اور احسن اقبال کی ضمانت پر رہائی کے بعد پارٹی میں نئی صورت حال پیدا ہو گئی ہے پارٹی کی قیادت دوبارہ ہارڈ لائنرز کے ہاتھ میں آگئی ہے دونوں رہنمائوں نے سروسز ایکٹس میں ترمیمی کی حمایت پر اختلاف کی وجہ سے ووٹ کا حق استعمال نہیں کیا تھا دونوں رہنمائوں نے پارٹی کے بعض رہنمائوں سے اس کے بارے میں اختلاف کا اظہار بھی کیا تھا تاحال پارٹی کی اعلیٰ قیادت پارٹی کے رہنمائوں کے درمیان ’’سرد جنگ‘‘ کا خاتمہ نہیں کر سکی پارٹی کی اعلی قیادت کی ملک میں طویل غیر حاضری سے اس ’’سرد جنگ‘‘ میں شدت پیدا ہو سکتی ہے پارٹی کے دو بڑے رہنمائوں کی رہائی کے بعد ان کی پارٹی پر گرفت مضبوط ہو جائے گی پاکستان مسلم لیگ(ن( کے’’ ناراض‘‘ رہنما چوہدری نثار علی خان وطن واپس آگئے ہیں لندن میں قیام کے دوران ان کی پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد محمد نواز شریف سے کوئی ملاقات ہوئی ہے اور نہ ہی دونوں نے ایک دوسرے کے ساتھ رابطہ کی کوشش کی ہے بلکہ دونوں ہی اپنی صحت کے مسائل کو حل کرنے کے لئے کوشاں رہے چوہدری نثار علی خان نے لندن میں قیام کے دوران اپنا میڈیکل چیک اپ کرایا چوہدری نثار علی خان نے لندن میں قیام کے دوران کسی سیاسی شخصیت سے ملاقات کی اور نہ ہی کسی سیاسی شخصیت کا ان کے ساتھ رابطہ قائم ہو ا انہوں نے اپنی قیام گاہ کے بارے میں بھی کسی کو کچھ نہیں بتایا ۔ چوہدری نثار علی خان نے پاکستان مسلم لیگ (ن) سے علیحدگی کے بعد دوبارہ پاکستان مسلم لیگ (ن) جائن کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے اور نہ ہی کسی جانب سے پرانے دوستوں کے درمیان ’’ناراضی ‘‘ختم کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش کی گئی ہے ’’ نواز نثار‘‘ ملاقات کے بارے میں افواہیں گردش کرتی رہیں لیکن چوہدری نثار علی خان کی جانب سے اس کی تردید کر دی گئی ۔
پنجاب کابینہ نے نوازشریف کی ضمانت میں توسیع کی درخواست مسترد کر دی ہے اور درخواست مسترد کئے جانے کا جواز یہ بنایا ہے کہ میاں نوازشریف میڈیکل بورڈ اور صوبائی کابینہ کی خصوصی کمیٹی کو مطلوبہ رپورٹس پیش نہ کرسکے۔ پنجاب کابینہ نے کہا ہے کہ نوازشریف کو عدالت کی طرف سے علاج کے لیے 8 ہفتوں کا وقت دیا گیا تھا لیکن 25 فروری 202-0ء تک اس وقت میں مزید 8 ہفتے گزر گئے ہیں لیکن نوازشریف کی طرف سے ایسی کوئی ٹھوس میڈیکل رپورٹ پیش نہیں کی گئی جس سے ثابت ہوسکے کہ جس گرائونڈ پر نوازشریف کو بیرون ملک بھیجا گیا اس میں مزید توسیع کی ضرورت ہے۔ وزیر قانون پنجاب محمد بشارت راجہ نے ایک پریس کانفرنس میں پنجاب کابینہ کے فیصلے کا اعلان کیا انہوں نے کہا ہے کہ نو از شریف آج تک لندن کے کسی ہسپتال میں داخل ہوئے اور نہ ہی ابھی تک ان کا کوئی آپریشن ہوا ہے اس لئے قانونی، اخلاقی اور میڈیکل بنیاد پر نواز شریف کی ضمانت پر توسیع نہیں بنتی لہذا پنجاب کابینہ نے میاں نواز شریف کی ضمانت میں توسیع کی درخواست مسترد کر دی ہے اور صوبائی کابینہ کی سفارش وفاقی حکومت کو بھجوا دی گئی ہے یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ حکومت کسی قیمت پر میاں نواز شریف کو علاج کے لئے بیرون ملک جانے کی اجازت دینے کے لئے تیار نہیں تھی ان کی علالت پر سیاسی کھیل کھیلا جا رہا تھا لیکن حکومت عدلیہ کے سامنے بے بس تھی حکومت عدلیہ کے حکم پر میاں نواز شریف کو بیرون ملک بھجوانے پر مجبور ہوگئی یہ جانتے ہوئے بھی کہ میاں نواز شریف چند دنوں کے لیے بیرون ملک گئے اور نہ ہی ان کی فوری واپسی کا امکان ہے لیکن حکومت نے نواز شریف کی وطن ’’واپسی‘‘ کو پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ بنا دیا ہے اور اس اس ایشو پر اپنی پوری توانائی صرف کر رہی ہے وفاقی کابینہ کا اجلاس ہو یا پنجاب کا بینہ کی میٹنگ ۔ کم و بیش ہر اجلاس کا موضوع گفتگو میاں نواز شریف کی علالت اور مریم نواز کی بیرون ملک جانے کی اجازت ہوتا ہے ۔اگرچہ وفاقی وزیر ریلویز شیخ رشید احمد نے میاں نواز شریف کی فوری وطن واپس نہ آنے کے بارے میں حقیقت کا منفی انداز میں ذکر کیا ہے لیکن یہ ہے بھی حقیقت میاں نواز شریف حکمرانوں کی چھاتی پر مونگ دل کر باہر گئے ہیں اب ان کے لئے میاں نواز شریف کو دوبارہ اپنے شکنجے میں لانا ممکن نہیں لہذا روز انہ’’ لکیر‘‘ پیٹ کر لوگوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ حکومت اپنے سب سے بڑے ’’سیاسی مخالف‘‘ کو دوبارہ جیل میں ڈالنے کے کوشاں ہے۔ ا دھر پنجاب کابینہ نے میاں نواز شریف کی ضمانت میں توسیع کی درخواست مسترد کی ادھر وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے پریس کانفرنس کر ڈالی انہوں نے کہا ہے ’’سیاسی قیدی‘‘ اپنی رپورٹس دینے سے قاصر ہے بار ہا رپورٹس مانگنے کے لئے خط لکھے گئے اس کے جواب میں میڈیکل سرٹیفکیٹس دیئے گئے ہیں۔ اب تک کی صورتحال میں یہ چیز سامنے آ چکی ہے کہ ان کے پاس میڈیکل رپورٹس نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایسی کون سی پراسرار سرجری ہے جس کے حوالے سے بتایا نہیں جا رہا۔ انہوں نے کہا کہ قانون میں گنجائش نہ ہونے کے باوجود حکومت نے اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انسانی ہمدردی اور طبی بنیادوں پر نواز شریف کو باہر جانے کی اجازت دی لیکن اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود بھی نواز شریف کو کسی ہسپتال میں داخل کرایا گیا اور نہ ہی عدالتی احکامات کے مطابق نواز شریف کی صحت کے حوالے سے میڈیکل رپورٹس حکومت کو بھجوائی گئیں، اسی وجہ سے حکومت پنجاب نے نواز شریف کی ضمانت میں مزید توسیع کی درخواست مسترد کر دی ہے۔ اس درخواست کے مسترد ہونے کے بعد نواز شریف’’ مفرور‘‘ ڈکلیئر ہو چکے ہیں، اگر وہ پاکستان واپس نہیں آتے تو قانون کے مطابق انہیں اشتہاری قرار دیا جائے گا۔ میاں شہباز شریف کو بھی آڑے ہاتھوں لیا ہے اور کہا ہے کہ میاں شہباز شریف نے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر اپوزیشن لیڈر کا عہدہ لیا ہے اور اپنے گھر سے دفتر اور گاڑی سمیت تمام مراعات اور تنخواہ لے رہے ہیں، ایسے میں ان کا ملک میں موجود نہ ہونا ایک غلط روایت ہے اور جو تنخواہ اور مراعات اپوزیشن لیڈر ہونے کے ناطے لے رہے ہیں وہ تو حلال کریں۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ میاں شہباز شریف کی لندن میں مصروفیات کا محور میاں نواز شریف ہیں ان کی میاں نواز شریف کے دل کی’’ اینجو پلاسٹی یا سرجری ‘‘ ہوئے بغیر وطن واپسی ممکن نظر نہیں آتی انہوں نے مارچ 2020ء کے اوائل میں وطن واپس آنے کا عندیہ دیا تھا لیکن میاں نواز شریف کے دل کی ’’اینجو پلاسٹی یا سرجری‘ موخر ہونے کے باعث میاں شہباز شریف کی فوری وطن واپسی ممکن نظر نہیںآتی ۔ حکومت میاں شہباز شریف کو بار بار ان کی ذمہ داریوں کا احساس دلا کر پاکستان واپس آنے کا تقاضا کر رہی ہے سیاسی لحاظ سے میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کے بیرون ملک رہنے سے حکومت کو تو ’’ریلیف‘‘ ہی مل رہا ہے میاں شہباز شریف کی وطن واپسی پر حکومت انہیں بھی جیل میں ڈال سکتی ہے لیکن اسے یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ میاں شہباز شریف کی وطن واپسی سے’’ سیاسی ٹمپریچر ‘‘ میں اضافہ ہو گا حکومت کی ترجمان کا تقاضا سوئی ہوئی اپوزیشن کو جگانے کے مترادف ہے اگر اپوزیشن نے انگڑائی لے لی تو پھر اقتدار کے ایوان لرزہ بر اندام ہو سکتے ہیں پاکستان مسلم لیگ (ن) نے میاں نواز شریف کی ضمانت میں توسیع بارے میں درخواست مسترد کرنے پر شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے میاں شہبا شریف نے میاں نواز شریف کی ضمانت میں توسیع کی درخواست مسترد کرنے کو انہیں قتل کی کوشش قرار دیا ہے آج سے مارچ کا آغاز ہو گیا ہے لیکن سیاسی افق پر تبدیلی کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا بظاہر پاکستان تحریک انصاف کی اعلیٰ قیادت نے منت سماجت کر کے اپنے اتحادیوں کو راضی کر لیا ہے اور اتحادیوں کی جانب سے فوری ’’بغاوت‘‘کا خطرہ بھی ٹل گیا ہے عالمی منظر نامے میں وزیر اعظم عمران خان کی گنجائش پیدا ہو گئی ہے اس لئے موجودہ حکومت سے جان چھڑانے کی خواہش مند قوتوں کے ’’پلان ‘‘ پر فوری عمل درآمد کا امکان نظر نہیں آتا دوسری طرف جمعیت علما اسلام (ف) کے امیر مولانا فضل الرحمن نے بھی اپوزیشن کی ازسر نوصف بندی شروع کر دی ہے اگر حکومت نے اپوزیشن کی طرف ’’دوستی‘‘ کا ہاتھ نہ بڑھایا تو پھر آنے والے دنوں میں ملکی سیاسی منظر نامہ پر تلخی اور محاذ آرائیء کے سائے گہرے ہو جائیں گے ۔