دبے گی کب تلک آوازِآدم!

ہندوستان بہت بڑا ملک تھا۔ یہ ملک دو حصوں پاکستان اور بھارت اور بھارت میں تقسیم ہوا۔ پاکستان مسلم آبادی کا ملک قرار پایا۔ اقلیتی فرقے بھی ملک کے باشندے میں جو پورے حقوق کے ساتھ پرامن زندگی بسر کر رہے ہیں ۔ بھارت میں اکثریت ہندو کی ہے اقلیتی آبادی میں تعداد کے لحاظ سے مسلمان دوسرے نمبر پر ہیں دوسری اقلیتوں میں سکھ تعداد کے لحاظ سے سب سے بڑی اقلیت ہیں۔ بھارت میں اول روز سے اقلیتوں کے ساتھ اچھا سلوک روا نہیں رکھا جا رہا ہے۔ سکھوں کو پاکستان کے ساتھ آنے کی دعوت دی گئی مگر سکھوں کی اس وقت کی قیادت نے کانگریس کی قیادت کے فریب میں آکر پاکستان کی پیشکش کو ٹھکرا دیا جسکا دکھ انہیں اب ہر وقت محسوس ہوتا ہے۔ بھارتی جبر اور زیادتی کو برداشت کر رہے ہیں مگر گیا وقت ہاتھ آتا نہیں۔ پنجاب کا بہت بڑا حصہ اہم اضلاع انگریزی حکومت اور کانگریس قیادت کی سازش سے پاکستان کو دینے کی بجائے بھارت کو دے دئیے گئے اگر سکھوں کی اس وقت مت نہ ماری گئی ہوتی وہ ہندو کی ذہنیت کا بروقت اندازہ کر کے پاکستان کی بات مان کر آجاتے تو یہ پنجاب کا غصب شدہ حصہ بھی پاکستان ہوتا۔ سکھ امن و سکون سے پاکستانی شہری کی حیثیت سے رہتے ۔ امرتسر میں ہزاروں سکھوں کا جو بھارتی جواہر لعل نہرو کی بیٹی اندرا گاندھی نے بے دردی سے قتل عام کیا یہ نہ ہوتا۔ بھارت میں مسلمانوں کیخلاف تو آزادی کے روز اول سے نفرت اور دشمنی کا رویہ چل رہا ہے ۔ نہ مساجد محفوظ ہیں نہ گھر اور کاروبار محفوظ نہیں‘ نہ تعلیمی ادارے ان کی دسترس سے بچے ہوئے ہیں۔ حکومتی سطح پر مسلمان دشمن پارٹیوں تنظیموں اور افراد کی سرپرستی کی جا رہی ہے۔ بھارت میں کسی بھی پارٹی کی حکومت آجائے مسلمانوں کے ساتھ دشمنی اور نفرت میں کمی نہیں آتی۔ بی جے پی کی موجودہ مودی حکومت نے تو ہر سو آگ لگا دی ہے۔ مسلمانوں کا بچہ بچہ مرد‘ عورت ‘ بوڑھا‘ دیہاتی ‘ شہری‘ مزدور اور ہماری نااتفاقی اور حب الوطنی کے فقدان نے پاکستان کی شہ رگ کشمیر کو بھارت کے خنجر کی زد میں دیدیا۔ اب وہاں کشمیری مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے اسے ساری دنیا جانتی ہے۔ نہ عزتیں محفوظ ہیں‘ نہ جان و مال اور کاروبار محفوظ ہیں۔ منظم طریقے پر نوجوانوں کو اغوا کر کے عقوبت خانوں میں ڈالا جا رہا ہے‘ بھارتی جیلوں میں بند کیا جا رہا ہے ‘ درندگی اور بے حیائی کی انتہا ہے کہ وزیر اور فوجی جنرلز تک کشمیر میں موجود بھارتی درندہ فوجیوں کو مسلمان خواتین کی عزتیں برباد کرنے پر اکسا رہے ہیں۔ دو تین مللکوں ترکی‘ ملائشیا اور کسی حد تک ایران کے سوا کسی کو دکھ نہیں ہوا ۔ بھارت‘ اسرائیل اور امریکہ کو شہہ پر ہر قسم کی درندگی اور بربریت پر اترا ہوا ہے۔ کشمیری مسلمانوں کو اس حال تک پہنچانے میں بھارتی سامراج کا ساتھ دینے والے شیخ عبداللہ ایسے غداروں کا ہاتھ ہے۔ ان میں نہ دینی غیرت تھی نہ انسانی ہمدردی‘ یہ قاتلوں کے ہاتھ خنجر کی طرح استعمال ہوئے۔ یہ خاندان آج تک اسی ڈگر پر چل رہے ہیں۔مسلمانوں کو جب بھی اور جہاں بھی زخم لگے اپنوں کے ہاتھوں لگے۔ کشمیری مسلمان بھی ان بدبختوں‘ غداروں‘ دشمنوں کے ایجنٹوں کے ہاتھ میں کھیلتے رہے جن کے دل نور ایمان سے روشن تھے اور وہ دوست دشمن کی پہچان رکھتے تھے انکی کسی نے نہ سنی۔ بھارتی سامراج کی گرفت مضبوط ہوتی گئی۔ آج نوبت یہاں پہنچی ہے کہ اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل جنہوں نے کشمیریوں کیلئے استصواب رائے کا وعدہ کیا تھا کہ ان کی مرضی معلوم کی جائیگی کہ وہ پاکستان میں جانا چاہتے ہیں یا بھارت کا حصہ بننا چاہتے ہیں وہ بھی تماشبین اور غیرجانبدار ہونے کا عندیہ دے رہے ہیں۔ خودمسلمان اور عرب بھی پاکستان کو حق بجانب جانتے ہوئے بھی ساتھ دینے کیلئے تیار نہیں۔
آزاد کشمیر جسے مجاہدین‘ پختونوں اور فوجیوں نے بزور شمشیر حاصل کیا اس پر حکمرانی کرنیوالی حکومتوں نے بھی اپنے مجبور اور بھارتی غلامی میں جکڑے ہوئے مقبوضہ جموں و کشمیر کی آزادی کیلئے کوئی چارہ گری نہیں کی اگر یہ آزاد کشمیر کے عوام کو فوجی تربیت دیتے انکے اندر اسلامی روح جہاد بیدار کرتے تو خود مقبوضہ کشمیر کے اندر جہادی طاقتوں کو تقویت ملتی۔ آزاد کشمیر کی حکومتیں بدعنوانی‘ کرپشن اور جوڑتوڑ میں پاکستانی حکومتوں کی ہم پلا ہیں۔ پاکستان اور آزاد کشمیر کی مدد کوئی کرے تو کیسے کرے۔ یہ تو اس قیمتی کار والے کی طرح ہیں جسکی گاڑی چلتے بند ہو گئی اور وہ کار میں بیٹھا ادھر ادھر دیکھ رہا ہے لوگ پاس سے گزر رہے ہیں کوئی توجہ نہیں دے رہا ۔ آخر وہ خود کار سے اترا اور دھکا لگانے لگا تو اسے اس حال میں دیکھ کر راہ چلنے والوں میں سے بھی لوگ دھکا لگانے لگے اور اسے کہا کہ وہ گاڑی میں بیٹھے اور اسے سیدھا رکھے ہم دھکا لگاتے ہیں اور لوگوں کے تعاون سے گاڑی روانہ ہو گئی۔ کشمیر کے معاملہ میں بھی لوگ ساتھ تو اس وقت دینگے جب لوگوں کو آپ کی کوششیں نظر آئیں گی۔ آپ کے خلوص میں محمود غزنوی کی سی تڑپ نظر آئیگی۔
دور کھڑے دو آدمی یا دو گروہ آپس میں رنج کا اظہار کرتے رہیں کسی کو کیا وہ آپس میں گالی گلوچ کرتے رہیں لوگ ہنس ہنس کر گزرتے رہیں گے۔ تماشہ دیکھتے گزرتے رہیں گے یا وہیں کھڑے نظارہ کرتے رہیں گے اور لطف لیتے رہیں گے مگر جب وہ افراد یا گروہ ایک دوسرے کا گریبان پکڑ لیں گے اور ادھر ادھر سے جو شے ہاتھ لگی اٹھا کر مرنے مارنے پر تل جائیں گے لوگوں کو یہ لڑائی بڑھتی اور ہوتی نظر آئیگی تو لوگ دخل دینگے صرف گریبان پھٹیں گے‘ خون خرابہ نہ ہو گا۔ کشمیر کے معاملے میں بھی یہی ہو گا۔جذباتی تقریریں‘ بیانات‘ ہاتھوں کی زنجیریں‘ مظاہرے‘ جلسے جلوس۔ دنیا تماشہ دیکھے گی۔ سلامتی کونسل اقوام متحدہ باہمی مذاکرات کا تقاضا کرتی رہے گی مگر جب آپ مرنے مارنے پر تُل جائینگے پوری قوم فوجی تیاری کے ساتھ مسلح ہو کر سامنے کھڑی ہو گی تو ایٹمی جنگ کون ہونے دیگا۔ کشمیر آپ کا۔

ای پیپر دی نیشن