سنتا جا اور شرماتا جا

فرانس میں انقلاب کیوں آیا؟ شانزدہم کا قصور کیا تھا؟عیاش تو اس کے پیشترو بھی تھے مگر عوام کا غیض وغضب لوئز کو ہی کیوں بہا لے گیا تو اس حوالے سے کئی وجوہات بیان کی جاسکتی ہیں ۔ عوام دشمنی کی جو مثال لوئز نے قائم کی وہ انتہا تھی ۔ پسند کی عدالتیں لگانا ، بادشاہوں کی اولین ترجیح ہوتی ہے ۔ لوئز نے بھی لگائیں ، مگر یہ عدالتیں ظلم کی آماجگاہ بن گئیں ۔ ججوں نے جیسے فیصلہ کرلیا تھا کہ ایک فیصلہ بھی غریب کے حق میں نہیں سنایا جائے گا۔ کیسوں کی سماعت کیلئے ججوں نے ظالم اور مظلوم دونوں پر ہی بھاری فیس لگا دی تھیں ۔ قلمدان بکے ہوئے تھے ، امر اء زمیندار ، سرمایہ دار اپنی پسند کے فیصلے کرواتے ، ججوں کی زندگی بھی اتنی ہی شاہانہ ہوتی جتنی کہ فرانس کے بادشاہوں کی ہوا کرتی تھی ۔ لوئز نے فرانس کی تاریخ میں نیا کارنامہ یہ انجام دیا کہ پارلیمنٹ تشکیل دے دی ، اس تشکیل کا مقصد صرف یہ تھا کہ اپنے تمام سیاہ کرتوتوں کو وہ آئین کا جامہ پہنا سکے۔ کوئی زبان کھولے تو وہ اکڑ کر کہہ سکے کہ میں نے جو کہا آئین کے مطابق کہا۔میری حیثیت تو آئینی ہے اپنی آہنی حیثیت کو استحکام دینے کیلئے پارلیمنٹ میں ا س نے کاسہ لیس درباری بھیڑیے ، طبقہ اشرافیہ کو خوب نوازا۔ بادشاہ کے جو جی میں آیا پارلیمنٹ نے اس کو قانون بنادیا ۔ قانون پر کسی نے لب کوجنبش دینے کی کوشش کی تو اسے اُٹھا کر عدالت کے کٹہرے میں پھینک دیا۔ باقی کی دھلائی عدالت میں کی گئی ۔ لیکن لوئز کے خلاف عوام کے اُٹھنے کی ایک وجہ قحط بھی تھی ۔ فرانس بد ترین قحط کا شکارگیا ، بھیک منگوں کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ہوگیا ۔ گندم ناپید ہوگئی ۔ روٹی کی قیمت چھٹے آسمان سے جا لگی ، لوگ جانوروں کی کھال اُبال کر کھانے پر مجبور ہوگئے ۔اس دوران بادشاہ کی عدالت میں سے ایک شخص چیر ٹن ٹیرگو کھڑا ہو گیا ۔ اس نے آواز اُٹھائی کہ فرانس میں ٹیکس کاجو نظام تھا وہ انتہائی ظالمانہ تھا ۔ حالات بہتر بنانے کیلئے بڑے زمینداروں پر ٹیکس لگا نے پڑیں گے ٹیر گو کی اس آواز پر فرانس کے پسے ہوئے طبقے نے ایک انگڑائی سی لی، مگر ٹیرگو کی شکست یقینی تھی کیونکہ جن کے خلاف وہ آواز اُٹھا رہا تھا وہی لوگ پارلیمنٹ میں تشریف رکھتے تھے۔ سیاہ وسفید کے مالک تھے ۔ پارلیمنٹ کے یہی اراکین ٹیرگو کے خلاف کیس عدالت میں لے گئے ۔ ان پارلیمانی رئیسوں نے مؤقف اختیار کیا کہ یہ ملک ہمارے دم سے چل رہا ہے لوگوں کور روزگار ہم نے دیا ہے ۔ اگر ہمیں ٹیکس میں سہولتیں نہ دی گئی تو یہ ملک نہیں بچے گا ۔ عدالت کے جج صاحبان نے ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں فیصلہ سنایا ۔حالات یہ تھے کہ کھانے کو روٹی اور پہننے کو کپڑا نہیں تھا ، سرچھپانے کو چھت بھی میّسر نہیں تھی ۔
خلق خدا کا قہر ٹوٹا کہ جب لوئز کی بیو ی نے دردکے ماروں کا مذاق اُڑایا۔ ایک احتجاج کے دوران لوگوں کا شور سُن کر لوئز کی بیوی محل کی بالکونی میں آئی ، لوگ سوکھی روٹیاں ہاتھوں میں لیے کھڑے تھے ملکہ فرانس نے درباری سے پوچھا۔’’یہ لوگ کیا کہہ رہے ہیں ؟‘‘درباری نے کہا کہ یہ لوگ روٹی مانگ رہے ہیں ملکۂ عالیہ نے ہنس کر تعجب سے کہا ’’کیوں روٹی ، کیوںمانگ رہے ہیں؟ ‘‘ ادب سے درباری نے کہا کہ ملکہ عالیہ ! ملک میں قحط پڑ ا ہے۔کھانے کو روٹی نہیں ہے ملکہ نے قہقہہ لگایا اور حقارت سے بولی ’’کیسے عجیب لوگ ہیں روٹی نہیں ہے تو کیک کیوں نہیں کھاتے؟ ‘‘یہ ہتک آمیز اور رعونت بھری گفتگو جب عوام تک پہنچی پھر فرانس میں شاہی خاندان سمیت جن امراء اور رئیسوں کو چن چن کر مارا گیا ان کا نام صرف تاریخ میں باقی ہے ۔ مجھے یہ خوش فہمی بالکل نہیں ہے کہ پاکستان میں بھی کوئی خونی انقلاب آئے گا۔ بغاوت اور مزاحمت برصغیر کی تاریخ نہیں ہے ۔ قومیت اور فرقہ واریت کی بات اور ہے ۔ اپنے حق کیلئے یہ قوم کبھی نہیں اُٹھے گی ۔ اس موضوع پر پھر بات کریں گے ۔ سردست اس ملک میں سنائی دینے والی ان آوازوں کی نشاندہی کرنی جن آوازوں نے انقلاب فرانس کو دعوت دی تھی ۔ یہ وہ آوازیں ہیں جیسے کم سے کم درجے میں بھی توہین عوام کا نام دیا جاسکتا ہے ۔عوام کی اِس توہین کی بنیاد پر ویز مشرف نے رکھی پھر پاکستان کے ہر شہری کھلی آنکھوں سے دیکھ رہا کہ ڈیڑھ سال تک حکمرانی کے مزے لوٹنے والے آج اپنی زبان سے حکومتی نااہلی اور ناکامی کا اعتراف کررہے ہیں ۔ انہوں نے قوم کو سہولت فراہم کرنے کیلئے رتی بھر کام نہیں کیا ان کے دعوے اور وعدے بدستور جاری ہیں ۔البتہ زبان و ادب اور محاوروں کی تبدیلی اس صورت میں نظر آتی ہے کہ پہلے حکمرانوں اور خرابیوں کے ذمہ دارافراد کو ان کی خامیاں شمار کرائی جاتیں اور کہا جاتا تھاکہ ’’سنتا جا اور شرماتا جا ‘‘جو ذمے دار ہوتا اور ساتھ ہی اس میں غیرت بھی ہوتی تو وہ واقعی اپنے کیے دھرے پر شرما کر گردن نیچی کر لیتا ۔ غیرت زیادہ جوش مارتی تو وہ اپنے عہد ے سے سبکدوش ہو کر گھر بیٹھ جاتا۔ قیام پاکستان کے بعد یہ روایت برقرار نہ رہی ۔ مقتدر متمول طبقے شرم وحیا سے عاری ہوتے گئے ۔ اپنے ہر گناہ کو ثواب بار آور کراتے رہے ۔ خود سے گھر بیٹھنے کا تصور عنقا ہوگیا۔عوام نے کسی کو ’’کتا ہائے ہائے ‘‘ کرکے نکالا اور بہتوں کو ذلیل و خوا ر ہو کر اقتدار چھوڑنا پڑ ا۔ کبھی پانی حد سے گزر گیا تو ہاتھ پائوں مارتے ہوئے سیاستدانوں اور حکمرانوں نے فوج کو مدد کیلئے پکارا تو فوج نے آکر ملک کا کنٹرول سنبھالا ۔ مؤرخین و مبصرین کا کہنا ہے کہ حکمرانی کا مزہ چکھنے والے مقتدراداروں نے کبھی از خود سیاسی حکومتوں کو برطرف کرکے اقتدار سنبھالا ۔ وزیر اعظم عمران خان تو کئی بار اعتراف کرچکے ہیں کہ اِ ن کی حکومت کے سر پر سے ہما صرف گزارا نہیں بلکہ مستقل طور پر بیٹھا ہوا ہے۔ لہٰذا وہ اپنے اقتدار کی مدت پوری کرکے جائیںگے ۔ اِ س کے نتیجے میں صورتحال کچھ یوں رہ گئی ہے کہ ’’سنتا جا ، شرماتا جا ‘‘ کہ محاورے مخاطبین میں تبدیلی آگئی ہے اب عوام کے کسی کارندے کو کچھ سنا کر شرمندہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہے ۔
لاہور سے صحت کارڈ کے اجراء کی تقریر اور ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیرا عظم عمران خان نے پھر دہرائے ۔ سب سے اہم بات جو گزشتہ دنوںعمران خان نے کہی کہ ’’ منصوبہ بندی کے تحت بعض ٹی وی چینلز اُن کی حکومت کے خلاف پروپیگنڈہ کر رہے ہیں ۔رپورٹر ز عام آدمی سے پوچھتے ہیں کہ ملک میں مہنگائی ہے؟ اور پھر کہتے ہیں کہ کدھر گیا نیا پاکستان ۔ اِس کے بعد عام شہری ہمیں برا بھلا کہتا ہے۔ حکومتی نقطۂ نظر سے یہ چینلز اور غریب شہریوں کیلئے شرم کی بات ہے کہ وہ مقامی اور غیر ملکی مقتدر حلقوں کی محبوب و مرغوب ترین حکومت کی مہنگائی اور بیروزگاری کے بارے میں پروپیگنڈہ کرتے ہیں ۔ (جاری ہے)

ای پیپر دی نیشن