اے میری وادیٔ گُل کے پیارے لوگو! تم سے میرے تعلقِ خاطر کی گہرائی اور وسعت کا جو عالم ہے اسے بیان کرنے کے لیے مجھے الفاظ نہیں مل رہے۔ بس کچھ ٹوٹے پھوٹے لفظوں کا خراجِ محبت تمہیں دینے کی کوشش کر رہا ہوں۔ محبت کا یہ زَم زَم تب ہی سے بہتا چلا آیا رہا ہے جب میں نوعمری میں ٹوٹے پھوٹے شعروں میں تمہاری آزادی کے نغمے لکھتا اور گنگنایا کرتا تھا۔ پھر تمہاری مظلومیت سے اور پُرجو و پُرعزم تحریکِ حُریت سے تو میں تمہی میں کھو کر رہ گیا لیکن جب سے تم پر یہ نئی افتاد پڑی ہے، آزردگی اور پریشانی نے تو گویا میرے دل میں ڈیرے ہی ڈال لیے ہیں۔ وادیٔ گل لہو لہو اور دھواں دھواں ہے۔ میرے بچوں اور بھائی بہنوں کی آہ و زاری اور چیخیں میرے جگر کو پاش پاش کئے دے رہی ہیں۔ بظاہر تو زندگی معمول کے مطابق گزر رہی ہے لیکن ہر لمحہ ہر ساعت مجھے تمہارے دکھ یاد آتے ہیں۔ کلیجہ پھٹنے لگتا ہے ، جب تصور کرتا ہوں کہ اتنے عرصے سے کرفیو کی پابندیوں اور ظالم و سفاک قابض سپاہ کے محاصرے میں میرے لوگوں کے دن رات کیسے گزر رہے ہوں گے، اُن کی بنیادی انسانی ضروریات کیسے پوری ہو رہی ہوں گی ، اُن کا کاروبار، تجارت ، تعلیم علاج معالجہ کیسے چلتا ہو گا۔ میں تو اپنے آپ کو تمہارا مجرم سمجھنے لگا ہوں۔ میں اپنا گریبان پکڑ کر خود سے پوچھنے لگتا ہوں کہ تمہاری غیرت کو کیا ہوا؟ تم دوڑ کیوں نہیں پڑے اس طرف، کہ جتنی جان تم میں ہے، اسی کو لے کر اپنے پیاروں کی مدد کو پہنچتے…؟
میرے ملک کے اربابِ اختیار تو یہی کہتے جا رہے ہیں کہ ہم اہلِ کشمیر کے ساتھ کھڑے ہیں اور ان کی مدد کے لیے آخری حد تک جائیں گے لیکن عملاً کوئی محمد بن قاسم بن کر مظلوموں کی مدد کو نہیں پہنچا۔ میری بیٹیاں ، بہنیں دروازے کھولے کھڑی راہ تک رہی ہیں کہ ان کے پاکستانی بھائی ان کی مدد کو آئیں گے لیکن انہیں روزانہ ہی مایوسی ہونا پڑتا ہے۔ انتظار کی سولی پر چڑھے اب تو انہیں کئی مہینے ہو گئے ہیں…اس سے مشکل اور کون سا وقت آئے گا کہ ہم ہلکے یا بوجھل اپنے بے کس و بے بس لوگوں کی نصرت کو دوڑ پڑیں! افسوس ہم تو ٹَس سے مَس نہیں ہوئے۔ ہمیں تو چاہئے تھا کہ ہم ساری دنیا میں دیوانہ وار مارے مارے پھرتے اور ایک حشر برپا کر دیتے لیکن ہم نے جنرل اسمبلی میں ایک تقریر کر کے ہی سمجھ لیا کہ ہم نے تمہاری مدد و حمایت کا حق ادا کر دیا۔ یقیناً ہم سب مجرم ہیں۔ قابض ، ظالم اور سفاک دشمن کا تو ذکر ہی کیا، ساری دنیا تمہاری مجرم ہے۔ دنیا کے سب نام نہاد ادارے اور عدالتی فورم تمہارے مجرم ہیں لیکن دیکھنا ہم پاکستانیوں کو ہمارے جرم ضعیفی کو سزا دینے کا فیصلہ نہ کر لینا۔ ہم بہت شرمندہ ہیں، اللہ کے حضور بھی اور تمہارے سامنے بھی۔ بندے کی پیشانی پر ندامت کے قطرے ہوں تو اللہ کی رحمت جوش میں آ جاتی ہے اور پھر ایسا ہوتا ہے کہ،
؎موتی سمجھ کے شانِ کریمی نے چُن لئے
قطرے جو تھے میرے عرقِ انفعال کے
کبھی حسرت آتی ہے کہ کاش، تقسیم کے وقت دشمن سازشیں نہ کرتے۔ خود ہماری صفوں سے بھی شیخ عبداللہ جیسے میر جعفر و میر صادق نکل کر غارت گری نہ کرتے۔ اس سب کے نتیجے میں ایسی المناک صورتِ حالات پیدا ہوئی ، جس نے 72 برس سے برصغیر کے کروڑوں انسانوں کو متاثر کر رکھا ہے۔ شروع ہی سے عدل و انصاف اور حق و صداقت کے مطابق فیصلے ہوتے تو جو قدرتی اور فطری طور پر ہونا چاہئے تھا وہی ہوتا۔ یعنی ارضِ کشمیر کا ارضِ پاکستان سے ہی الحاق ہوتا۔ غیر فطری اقدامات کر کے جنت نظیر وادی کو جہنم زار نہ بنا دیا گیا ہوتا۔ لاکھوں بے گناہوں کا خون نہ بہتا، ہزاروں عفت مآب خواتین کی عزتیں پامال نہ ہوتیں، اربوں کھربوں کے گھر بار جائیدادیں املاک برباد نہ ہوتیں ۔ ہزاروں نوجوان عقوبت خانوں میں غیر انسانی سختیاں نہ جھیلتے۔ آئے دن نوجوانوں کے جنازے نہ اٹھتے۔ 80 لاکھ عوام پر ہر وقت خوف و دہشت کے سائے نہ منڈلا رہے ہوتے۔ لیکن میرے عزیزو! تیز ترک گامزن منزل مادور نیست، مجھے یقین ہے عنقریب رحمت کی گھٹائیں اٹھیں گی اور ارض گل ولالہ کو آبِ آزادی سے سیراب کریں گی۔
قطرے میرے عرقِ اِنفعال کے
Mar 01, 2020