سکولوں میں خوراک کی فراہمی

مکمل طور پر فری یا سستاسکول کا کھانا مہیا کرنے کا نظام دنیا کے بیشتر ممالک میں پایا جاتا ہے. اس طرز عمل کا مقصد سرکاری سکولوں میں بنیادی تعلیم کے عمل کو یقینی بنانا ہے.بچوں کی صحت تندرستی اوربھرپور نشونما کو یقینی بنانے کیلیے فلاحی ریاستی اس طرح کے اقدامات کرتی ہیں.حتیٰ کہ ہمارے پڑوسی ملک انڈیا میں دنیا کا بہت بڑا سکول میں کھانا مہیا کرنے کا پروگرام کامیابی سے چل رہا ہے.جس میں کروڑوں بچے مستفید ہو رہے ہیں.ہندوستانی حکومت نے اس سے بہت سے فائدے حاصل کئے ہیں جیسا کہ سکول میں بچوں کا اندراج, اسکول میں بچوں کی حاضری کا بہتر ہونا اور بچوں کی غذائی قلت کا تدارک شامل ہیں .اس سے دنیا میں بھوک کے پیمانے پر بھی بھارت کی حیثیت میں بہتری آئی ہے.اگرچہ یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ابھی بھی ہندوستان میں بھوک اور غربت وسیع پیمانے پر پائی جاتی ہے.پھر بھی بچوں میں غذائی قلت کا تدارک اور متاثرہ بڑھوتری میں بہتری دیکھنے میں آئی ہے.اور بچوں کے سکول جانے کی تعداد میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔بچوں میں غربت بھوک اور اور محرومی کا خاتمہ کرنے میں میں پاکستان انڈیا سے بہت پیچھے ے.پاکستان عالمی بھوک کے معیار پر 119 ممالک میں 106 نمبر پر ہے ہے جس کا مطلب ہے کہ دنیا میں میں صرف 16 ممالک سے پاکستان بہتر ہے. اور اگر جنوبی ایشیا کی بات کی جائے توخطے میں صرف افغانستان متاثرہ بڑھوتری اور بھوک میں پاکستان سے بدتر ہے.پاکستان میں 45 فیصد بچے متاثرہ بڑھوتری کا شکارہیں ہیں.خاص طور پر سندھ کے ضلع تھر پارکر میں حالات بہت دیگر گو ہیں. جہاں بھوک اور قابل علاج امراض اور مسائل سے بچوں کی اموات واقع ہو جاتی ہیں.اسی طرح پاکستان میں سکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد خطرناک حد تک زیادہ ہے‘ پاکستان میں 25 ملین بچے سکول سے باہر ہیں یہ وہ بچے ہیں جن کی عمر ایک سے سولہ سال تک کی ہے اور انہیں سکول جانا چاہیے اور بنیادی تعلیم حاصل کرنی چاہیے اس لیے ہمارے ہمارے لیڈروں کو ترجیحی بنیادوں پر اس پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔بچے مستقبل کے معمار ہوتے ہیں ایک اور ایک بہتر مستقبل کے حقدار ہوتے ہیں.موجودہ مشکل صورتحال جو صحت کو لاحق خطرات اور غذائی بے یقینی کو جنم دیتی ہے . آنے والی نسلوں کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے.ہمیں صورتحال کو ترجیحی بنیادوں پر بہتر بنانے کی ضرورت ہے کیونکہ اس پر ہی ہمارے مستقبل کا دارومدار ہے.انڈیا میں 120 ملین بچے مفت خوراک سے مستفید ہوتے ہیں. بنگلہ دیش سری لنکا اور نیپال میں بھی بچوں کو خوراک مہیا کرنے کے پروگرام چل رہے ہیں. پاکستان میں بھی اس طرح کی اقدام کی ضرورت ہے تاکہ اپنے روشن مستقبل کو یقینی بنایا جا سکے.مندرجہ ذیل پانچ اہم وجوہات ایسی ہیں جو یہ ثابت کرتی ہیں کہ پاکستان میں جلدازجلد سکولز میں میںفری یا سستا کھانا فراہم کرنے کے پروگرام شروع کیا جانا چاہئے۔
بھوک اور متاثرہ بڑھوتری جو اسکول جانے والے بچوں کو بالخصوص متاثر کر رہی ہے, سکول میں خوراک مہیا کیے جانے سے سے اس پر قابو پایا جاسکے گا.عالمی فوڈ پروگرام کے مطابق پاکستان میں 60 فیصد بچے غذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں ہے. غذائی عدم تحفظ سے متاثر ہونے والوں میں بچوں اور عورتوں کی بڑی تعداد شامل ہے .سکول میں خوراک مہیا کرنے کے عمل سے اس بنیادی انسانی مسلہ کا موثر تدارک اور سدباب ہوسکے گا ۔پاکستان میں 24 ملین بچے ایسے ہیں جن کی عمر ایک سے سولہ سال تک ہے اور انہیں سکول جاکر بنیادی تعلیم حاصل کرنی چاہیے آئے مگر وہ سکول سے باہر ہیں.سکول میں مفت خوراک مہیا کرنے سے سے ایسے بچوں کو ایک محرک ملے گا اور سکول میں بچوں کے اندراج اور حاضری میں بہتری ہوگی بھی یہ بچے جو والدین کی غربت عدم توجہ اور معاشرتی بے حسی کا شکار ہیں اس پروگرام سے مستفید ہوں گے۔اسکول میں خوراک مہیا کرنے سے معاشرتی تحفظ کو یقینی بنایا جاسکے گا جس سے گلیوں اور فٹ پاتھ پر رہنے والے بچے فائدہ اٹھائیں گے. وزیراعظم عمران خان جو پاکستان کو ریاست مدینہ جیسی فلاحی ریاست بنانا چاہتے ہیں اور لوگوں کے لیے بنا ہے اور احساس پروگرام چلا رہے ہیں.انہیں غذائی تحفظ فراہم کرنے کا پروگرام بھی اپنی ترجیحات میں شامل کرنا چاہیے.سکول میں خوراک مہیا کرنے سے بچوں کی مزدوری جیسی لعنت پر بھی قابو پایا جاسکے گا۔

ای پیپر دی نیشن