عظیم شاعر، معلم، ادیب، نقاد، مترجم، مدیر

صوفی صاحب نے جس شہر میں آنکھ کھولی وہ امرتسر کہلاتا تھا جس کا پانی میٹھا تھا۔ اُس کی شیرینی صوفی صاحب کی باتوں میں موجود تھی۔ یہ شہر ایسا شہر تھاجسں میںکاروبار کے علاوہ بڑے بڑے شہرت یافتہ شاعر، ادیب علماء فضلاء اور مشائخ بستے تھے۔ جہاں پشمینوں کے سوداگر بھی تھے جو امرتسر سے کلکتہ تک کاروبار کرتے اور سوداگری کے ساتھ ساتھ علم و فضل میں بھی شہرت رکھتے تھے۔صوفی صاحب نے جب علم کی ابتدا کی اس زمانے میں علمی افق پر بہت سے ستارے جگمگا رہے تھے جن میں صوفی صاحب کے برگزیدہ اُستاد قاضی حفیظ اللہ، محمد عالم آسی، مولوی احمد دین امرتسری، علامہ محمد حسین عرشی امرتسری، حکیم مفتی غلام رسول اور صوفی تبسم کے خاص اُستادِ گرامی حکیم فیروز الدین طغرائی کے نام قابل ذکر ہیں۔
صوفی تبسم کا تخلص ابتدا میں کچھ عرصہ اصغر صبہانی بھی رہا مگر اُن کے اُستاد نے یہ تخلص اس لیے بدلا کہ صوفی صاحب سرپا متبسم رہتے تھے۔ لہٰذا اُنہوں نے ان کا تخلص تبسم تجویز کیا۔ صوفی صاحب نے طالب علمی کا ابتدائی زمانہ امرتسر میں گزارا اور دادا کی تربیت میں رہے۔ صوفی صاحب کے دادا کا بہت بڑا کتب خانہ تھا۔ اس کتب خانہ میں فارسی اور اُردو کی نادر کتابیں موجود تھیں۔ صوفی صاحب اس نادر علمی سرمایہ سے خوب فیض یاب ہوئے۔ ان میں فارسی شعراء کے دیوان بھی تھے۔ صوفی صاحب کو بچپن ہی سے فارسی شاعری کا ذوق و شوق تھا۔ یہی وجہ ہے کہ صوفی صاحب نے جب شعر کہنا شروع کیے تو وہ اشعار فارسی زبان ہی میں تھے۔
صوفی صاحب ڈاکٹر سیف الدین کچلو، شیخ حسام الدین، سید عطااللہ شاہ بخاری کا اکثر ذکر چھیڑتے جو امرتسر میں صوفی صاحب کے محلے میں ہی رہتے تھے اور صوفی صاحب کے ساتھ اُن کے خاص مراسم تھے۔ صوفی صاحب جب لاہور منتقل ہوئے تو وہ لوگ صوفی صاحب کے ہاں ہی قیام کرتے۔ شیخ حسام الدین احرار کے عظیم لیڈر شمار ہوتے تھے۔ اُن کے صوفی صاحب اور اہل خانہ کے ساتھ نجی تعلقات تھے۔
لاہور میں صوفی صاحب بھائیوں کے میدان (علاقہ کا نام) ایک سال رہے۔ پھر ذیلدار روڈ پر قیام پذیر رہے۔ جہاں نیاز مندانِ لاہور کی مجالس اپنے عروج پر تھیں۔ پھر کچھ عرصہ اندرون بھاٹی گیٹ قیام پذیر رہے۔صوفی صاحب کچھ عرصہ کو اڈرینگل ہوسٹل (اقبال ہوسٹل) میں بھی رہے۔ ایک سال وہاں قیام پذیر ہونے کے بعد نیو ہوسٹل گورنمنٹ کالج میں منتقل ہو گئے۔جہاں انہوں نے ریٹائرمنٹ تک کا عرصہ گزارا۔ نیو ہوسٹل میں پطرس بخاری بھی آتے تھے جو اُس وقت گورنمنٹ کالج کے پرنسپل اور صوفی صاحب کے دوست بھی تھے۔ یہاں دیگر دوست احباب کو اکٹھا کرتے اور رات گئے تک علمی و ادبی محفل گرم کرتے تھے۔ یہ علمی و ادبی حلقہ نیاز مندانِ لاہور کے نام سے مشہور ہے جن میں پطرس بخاری کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر تاثیر، عبدالمجید سالک، چراغ حسن حسرت، حفیظ جالندھری، پنڈت ہری چند اختر، کرنل مجید ملک، امتیاز علی تاج اور عبدالرحمن چغتائی شامل تھے۔ صوفی صاحب 1957ء میں گورنمنٹ کالج سے ریٹائر ہونے کے بعد نیوہوسٹل سے صنعت نگر حویلی میں منتقل ہو گئے اور وہاں دس سال کا عرصہ گزارا۔ یہاں بھی پاکستان کے عظیم مفکر جمع ہوتے اور یوں علمی و ادبی مجالس کا دورہ دورہ رہتا۔ اُستاد دامن احسان دانش، باؤ کرم، زیڈ اے بخاری، اعظم چشتی، فیض احمد فیض، ڈاکٹر حمید الدین، عابد علی عابد ااور کئی نامور شخصیات سے گیلری بھرتی رہتی۔ 1964ء میں صوفی صاحب سمن آباد منتقل ہوئے جہاں انہوں نے زندگی کے قیمتی چودہ سال گزارے۔
یہ آج کون خراماں اِدھر سے گزرا ہے
جبین شوق ہے بے تا نقش پاکے لیے
صوفی صاحب ریٹائر ہونے کے بعد بھی درحقیقت ریٹائر نہ ہوئے بلکہ بدستور علمی و ادبی کاموں میں مصروف رہے۔ اُسی سال صوفی صاحب کو خانہ فرہنگ ایران کا ڈائریکٹر بنا دیا گیا۔ یہ وہ ادارہ ہے جس کے بانی خود صوفی صاحب تھے۔ فارسی زبان کی ترویج کے سلسلے میں اُن کی کوششیں قابل ستائش ہیں۔ آپ نے لوگوں میں فارسی کا ذوق پیدا کرنے کے لیے بے انتہا کام کیا۔ اُسی دوران صوفی صاحب سول سروسز اکیڈیمی اور فنانس سروسز اکیڈیمی میں بھی معلم کی حیثیت سے کام کرتے رہے جہاں وہ اُردو زبان کے معلم تھے۔ آپ کچھ عرصہ ’’لیل و نہار‘‘ کے ایڈیٹر بھی رہے۔ آپ کی سرپرستی میں اس ادبی و ثقافتی مجلے نے کافی ترقی کی۔ اس کا شمار اعلیٰ معیار رسالوں میں ہونے لگے۔ ’’لیل و نہار‘‘ میں اُن کا ایک کالم ’’حرف و سخن‘‘ کے نام سے چھپتا رہا جو بے حد مقبول تھا۔ لیل و نہار میں کچھ عرصہ کام کرنے کے بعد ریڈیو پاکستان میں بطور مشیر اعلیٰ وابستہ ہو گئے۔ ریڈیو پاکستان میں بطور مشیر نہایت تندہی اور مستعدی سے کام کرتے رہے۔(ختم شد)

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...