میرے ہاتھ کے اخبار میں یکم فروری دوہزار بیس ہے اور اس میں نیوروسرجن ڈاکٹر ذوالفقار منگی کی موت کا واقعہ درج ہے۔مجھے لامحالہ بڑا تجسس سا ہوا،تو میری آنکھوں میں ٹی وی چینل پر ایک پروگرام نظر سے گزرا جو ،ذرا ہٹ کے، کے عنوان سے تھا۔اس میں ڈاکڑ منگی کا ایک ویڈیو کلپ بھی دیکھا اور اسکی گفتگو سننے کا موقع ملا۔
اس میں ایک جگہ وہ اپنے زخمی بھائی کے ساتھ کھڑا اس کے زخموں کے بارے میں بتا رہا تھا جبکہ دوسری کلپ میں ،وہ اپنے پیشے،سپیشیلیٹی ،واقعے اور نواب وساں فیملی کے بارے میں بتا رہا تھا۔ ۔ڈاکڑ منگی خود بھی غصے اور پریشانی بلکہ قدرے گھبراہٹ کا شکار لگ رہے تھے۔ اس کے بعد خود ڈاکڑ منگی کی موت جو اسکے گھر میں بتائی گئی ،اچانک اور پراسرارسی بتائی گئی۔اس سارے واقعے کہ بیان کرنے سے ،ہمارا مطمع نظر کسی کی ذات کو ہدف تنقید بنانا ہر گز نہیں ہے۔لیکن اس واقعہ کا انجام قدرے عجیب اور غیر متوقع سا لگا۔اگرچہ خیر پور واقعے اور کجروال کی فتح میں آنے کا کوئی براہ راست تعلق تو نہیں،لیکن ڈاکڑ منگی کی موت،ایک پڑھے لکھے آدمی کی موت ہے اور مکمل تحقیقات کا تقاضہ کرتی ہے۔چاہے بااثر افراد ملوث ہوں۔اسکی والدہ کے ساتھ بدسلوکی،اسکے بھائی کا تشدد سے قتل اور پھر ڈاکڑ کی اچانک یا پر اسرار موت،ڈاکڑ کا اندرون ملک یا بیرون ملک سے سپیشلسٹ کی ڈگری کاکوالیفائڈ سرجن ہونایاور جیسا کہ سنا گیا ہے کے وہ کراچی جیسے پوش علاقے کو چھوڑ کر ،اپنے آبائی پسماندہ علاقے،کمب میں خدمت کے جذبے سے آیا۔
سندھ ہائی کورٹ نے بیشک ضلعی انتظامیہ کو بلایا اورہیومن رائٹس والوں نے بھی نوٹس لیا،لیکن بقول ڈاکٹر ایف آی آر نہ کٹ سکی اور ڈاکٹر بظاہر غیر محفوظ رہا اور کوئی ریاستی مشینری بادی النظر اسکو تحفظ نہ دے سکی۔ عین انہی دنوں میں،کجروال جو کہ مودی کا سخت مخالف تھا،اور ایک سابق انکم ٹیکس آفیسر تھا، دہلی کا دوبارہ وزیر اعلیٰ بننے میں کامیاب ہوگیا۔
بیشک اروند کجروال ایک سماجی ورکر تھا لیکن وہ بھی اپنے معاشرے میں مزاحمتی کردار کے طور پر سوسائٹی کی ویلفیر کے لیے،سامنے آیا۔وہ ذاتی طور پر ، انتہائی سادہ مزاج،سادہ رہن سہن ،سادہ طوراطوار اور معاشرے میں اس نے عام آدمی کے حقوق کے لیے جنگ کی۔اس نے آر ٹی آی جسے رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کہتے ہیں،کے تحت پہلے پہل بنیادی ،مقامی مسائل کی طرف توجہ کیاور ان کے حل کی طرف جرات مندانہ پیش قدمی کی اور جہاںجہاں فائل رکی ہوی تھی،جہاں اشتہارات کے مطابق کام میں کرپشن کا شک تھا،وہیں متعلقہ دیپارٹمنٹ سے نہ صرف ٹینڈر کی کاپی لیکر نہ صرف کام رکوایا،بلکہ کھلے عام اینٹی کرپشن کے نام پر،طاقتور مافیا کو چیلنج کیا،راشن ڈپووںکے نول میں ہیراپھیری پکڑی،حتی کہ گٹرز کے ڈھکنوں کے سائزکی کمی بیشی پکڑی،سینکڑوں لوگوں کے بل کم کرائے۔
بقول کجروال،آر ٹی آئی لیکٹ کی ہی وجہ سے ہی اسکو عوامی شناسائی ملی،بعد میں پریورتن بمعنی تبدیلی کے پلیٹ فارم سے بھی مافیا کے خلاف لڑتا رہا۔یہ باتیں وہ انڈیا جیسے تنگ نظر ملک میں،کرپٹ طاقتورمافیا کے خلاف،کرتا رہا
کیا ہمارے وطن عزیز میں ایسا ایک آدمی یا چند درمیانے درجے کے لوگوں کے لیے ممکن ہے۔اہم سوالیہ نشان ہے،بیشک انڈیا میں بھی اسکوگھسیٹا اور اس کے اوپر جوتے پھینکے گئے، لیکن شائد اسکا سماجی کام اور لگن بہت زیادہ تھی یا انکا معاشرہ ،ہمارے معاشرے سے زیادہ برداشت اور وسیع نظری کا حامل ہے کیونکہ فیوڈل سسٹم،جاگیردارانہ اور وڈیرہ سوچ وہاں ختم ہوئی ہوگی تو تبھی ،عام لوگ وہاں اقتدار میں آنے میںکامیاب ہوئے ہوںگے۔ہمارے ملک میں شروع سے لے کر آج تک کوئی عام طبقے کا بندہ اپنی یا اپنے چندساتھیوں کی کوشش سے آج تک وزیراعلی تو بہت دورکی بات، سوائے دستی کے،یا بھٹو دور میں بھٹو کی ذاتی وجہ سے کوئی، غریب اسمبلی کا منہ دیکھ سکا۔ شائد ، یہ ہمارے ملک میں سامراجی ،فیوڈل تسلسل ہے،جو کوئی توڑنا ہی نہیں چاہتااور یہاں سفارش اور بڑوں کی سرپرستی کے بغیر کوئی کیجروال نہیں بن سکتا۔ہماری زندگیوں کے بعد شائد یہ ہو سکے۔
تاریخی طور پر،انڈیا کو یہ کریڈٹ پنڈت نہرو کو دینا پڑے گا کہ اس نے وہاں فیوڈل سوسائٹی کو ختم نہیں،تو بہت حد تک کمزور کیا۔ فوج کو سیاست میں آ نے سے روکے رکھا لور جاگیر دارانہ ،وڈیرہ، ذہنیت کو جڑ نہ پکڑنے دی۔جبکہ ہم ،لیاقت علی خان کے قتل کے بعدتاریک راہوں میں کھوتے چلے گیے۔اور ہمارے ادارے جو لوگوں کو انصاف و تحفظ فراہم کر سکتے تھے ،وہ ناکام ثابت ہوئے اور جمہوریت بھی نہ پنپ سکی ،بیوروکریسی کے دروازے عام آدمی کے لیے آج بھی بند نظر ہیںتھانہ کلچر آج بھی پورے عروج پر ہے۔انصاف کے حصول کے لیے سالوں کا جاںگسل انتظار ضروری ہے وہ بھی اگر زنذگی میں مل گیا تو۔سفارش کے بغیر کوئی کام کم ہی ہوتا ہے۔لاہور کے دل ہسپتال پر حملہ۔،ساہیوال کے واقعات کم دلخراش نہیں۔ہمارے ہاں تو بدقسمتی سے ایدھی صاحب بھی بیرون ملک جانے کا سوچتے رہے۔جبکہ حکیم سعید کو دن دیہاڑے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ اگر حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے،تو شائد ہمارے معاشرے میں بے حسی،مایوسی،افراتفری اور انارکی انہی اداروں کے لوگوں کے ڈیلور نہ کرنیکی وجہ سے ہے۔جس پر ہمیں ،توجہ دینے کی فوری اور اشد ضرورت ہے،مباداکہیں بہت دیر نہ ہو جائے۔
دنیا میں صرف وہ ہی ریاستیں کامیاب ٹھہرتی ہیں ،جہاں لوگوں کو انصاف میسر ہو۔ جانی و مالی تحفظ ہو تا آنکہ وہ امن سے رہ اور سوچ سکیں۔ہمارے ہی ملک عزیز کے افراد بیرون ملک اعزاز حاصل کرتے ہیں اور حب وہ پاکستان کی خدمت کے جذبے سے سرشار واپس آ تے ہیں تو انہیں یہاں ریڈ ٹیپ زم اور کرسیوں پر براجمان مافیا بددل کر کے بھگا دینے میں کامیاب ہو تے ہیں۔یہ حقائق ہیں جن کو لکھنااور ان کا سدباب کرنا عین فرض ہے۔بقول اقبال
اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں بیگانے بھی نا خوش
میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند
٭…٭…٭