ندیم اپل
وزیر اعظم عمران خان نے ایک بار پھر مسئلہ کشمیر سمیت برصغیر میں تمام مسائل مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر زور دیا ہے مزید برآں انہوں نے پاکستان کی طرف سے امریکہ اور چین میں کشیدگی کے خاتمے کیلئے کردار ادا کرنے کی پیشکش بھی کی۔اپنے دو روزہ دورہ سری لنکاکے دوران انہوں نے کولمبو میں مختلف عوامی اور بزنس فورمز سے بھی خطاب کیا۔وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ تنازعات اور جنگ کسی صورت بھی مسائل کا حل نہیں خاص طور پر مسئلہ کشمیر کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کشمیری عوام کے حق خودارادیت کیلئے عالمی سطح پر اپنی کوششیں جاری رکھے گا اور پاکستان کے سفارتی وفود بھی اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔وزیراعظم عمران خان نے کولمبو میں ٹریڈ اینڈ انویسٹمنٹ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ میری سیاست کا محرک صرف غربت کا خاتمہ تھا جس کے لیے میں نے تقریباً 25 سال جدو جہد کی اور میں نے سیاست میں حصہ اس لیے لیا کیوں کہ میں سمجھتا تھا کہ غربت کے خاتمے کا بہترین طریقہ ایک فلاحی ریاست کا قیام ہے۔سری لنکا کے دارلحکومت کولمبو میں پہلی 'پاکستان۔سری لنکا تجارت و سرمایہ کاری کانفرنس' کا انعقاد پاکستانی وزارت تجارت نے ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان، بورڈ آف انویسٹمنٹ پاکستان اور سری لنکا میں پاکستانی ہائی کمیشن کے تعاون سے کیا جس میں وزیراعظم عمران خان کے علاوہ سری لنکا کے وزیر اعظم مہندرا راجا پاکسے بھی شریک ہوئے۔وزیراعظم نے کہا کہ اس وقت پاکستان میں ہمیں اشیائے خور و نوش کی مہنگائی کے مسئلے کا سامنا ہے کہ کس طرح ان قیمتوں کو نیچے لایا جائے ۔ سری لنکا کے صدر نے اپنے دورہ چین کے تجربات سے آگاہ کیا کہ انہوں نے وہاں فارمز کا دورہ کیا اور انہیں معلوم ہوا کہ کس طرح وہاں ہول سیل اور ریٹیل کے فرق کو کم کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ غربت کے خاتمے کا دوسرا طریقہ سرمایہ کاری اور کاروبار میں منافع کو فروغ دینا ہے، جس پر میراسب سے زیادہ زوررہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے پاکستان میں پالیسیوں کو مکمل طور پر تبدیل کردیا ہے جو بدقسمتی سے40 سال سے جاری تھیں۔ حکومت کا پورا ڈھانچہ، بیوروکریسی کا ڈھانچہ اس انداز میں ڈھال دیا گیا ہے کہ وہ کاروباری اور تاجر برادری کی سرمایہ کاری کی راہ میں رکاوٹ نہ آئے۔ ہم نے گزشتہ 2 سال کے عرصے میں کاروباری آسانیوں کیلئے پوری سوچ کو تبدیل کرنے کی کوشش کی۔ ہم نے 28 چیزوں میں بہتری کی ہے، عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق ہمارے ہاں کاروباری آسانیوں میں بہتری آئی ہے، اور اس کا مقصد دولت کی پیداوار اور اس دولت کو اپنی آبادی کے نچلے طبقے پر خرچ کر کے انہیں غربت سے نکالنا ہے جیسا کہ چین نے کیا۔وزیراعظم نے کہا کہ میں چین کی ایک بات کو بہت سراہتا ہوں کہ انسانی تاریخ میں یہ واحد ملک ہے جس نے 30 سے 35 سال کے عرصے میں 70 کروڑ افراد کو غربت سے نکالا ہے، اس سے قبل ایسا کبھی نہیں ہوا۔ان کا کہنا تھا کہ اس بارے میں میری سری لنکن صدر سے بہت اچھی بات چیت ہوئی اور جب سے اقتدار سنبھالا ہے میرا اس پر بہت زور ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ کاروبار، کاروباری برادری اور سرمایہ کاری کی پشت پناہی کرنے کا مقصد غربت کا خاتمہ، دولت پیدا کرنا اور غربت ختم کرنا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی ملک میں دولت کی پیداوار کا تیسرا مقصد استحکام ہے، سیاسی استحکام،پڑوسیوں کے ساتھ اچھے تعلقات بنانا کیوں کہ ہماری اور سری لنکا کی مشترک بات یہ ہے کہ جب آپ کسی تنازع یا دہشت گردی میں گھرے ہوں تو پہلی چیز جو اس سے متاثر ہوتی ہے وہ کاروباری ماحول، سرمایہ کاری اورسیاحت کا شعبہ ہے، اگرچہ پاکستان کی سیاحت ابھی سری لنکا جتنی ترقی یافتہ نہیں، لیکن پھر بھی پاکستان سری لنکا جیسے تجربے سے گزر چکا ہے۔
وزیر اعظم عمرا ن خان کا کہناتھا ک جیسے ہی میں نے اقتدار سنبھالا میں نے پڑوسی ملک بھارت سے رابطہ کیا اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی پر واضح کیا کہ ہمارے اختلافات دور کرنے کا راستہ مذاکرات اور اس کے بعد تجارتی تعلقات کی بہتری اور کشیدگی کم کرنا ہے لیکن میں کامیاب نہیں ہوا۔ان کا مزید کہنا تھا کہ لیکن میں پْر امید ہوں کہ بالآخر یہ احساس غالب آجائے گا کہ برصغیر میں ہمارے لیے اپنے لوگوں کو غربت سے نکالنے کا واحد راستہ تجارتی تعلقات ہیں، انہیں بہتر بنانا، ایسے مہذب پڑوسیوں کی طرح رہنا جس طرح یورپی ممالک رہتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ خدا جانے جرمنی اور فرانس نے کتنی جنگیں لڑیں اور اس میں کتنے لاکھ انسان مارے گئے لیکن آج وہ کاروبار کے ذریعے ایک دوسرے سے منسلک ہیں، بالخصوص یورپیئن یونین کے قیام کے بعد ان کی تجارتی تعلقات بہت مضبوط ہوگئے ہیں اس لیے یہ ممالک ایک اور جنگ کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے۔انہوں نے کہا کہ برصغیر کے حوالے سے بھی میرا خواب ہے کہ ہم اپنے اختلافات دور کریں، ہمارا صرف ایک اختلاف ہے اور وہ مسئلہ کشمیر ہے اور ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ اسے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حل کیا جائے اور یہ صرف مذاکرات کے ذریعے ہی حل ہوسکتا ہے۔
وزیراعظم نے مزید کہا کہ گزشتہ 20-30 سالوں میں ہم نے دنیا میں یہ دیکھا کہ اگر اقوام کے درمیان تنازع ہو تو وہ مزید تنازعات کو جنم دیتا ہے، ایک قوم ایک مسئلہ سلجھانے کے لیے جنگ کرتی ہے اور 5 دیگر مسائل پیدا ہوجاتے ہیں، امریکا عراق میں القاعدہ کا خاتمہ کرنے گیا اور اسے داعش ملی۔انہوں نے کہا کہ تنازعات مسائل کو حل کرنے کا طریقہ نہیں ہیں، میں دوبارہ چین کی مثال دوں گا کہ چین صدر نے کہا کہ ان کے بھی پڑوسیوں کے ساتھ مسائل ہیں لیکن یہ تمام مسائل تجارت، کاروبار اور سرمایہ کاری سے کم ہوگئے ہیں۔وزیراعظم نے کہا کہ ایک ارب 30 کروڑ لوگوں پر مشتمل کے اس خطے کی صلاحیت کا تصور کریں، یہ سب سے بڑی مارکیٹوں میں سے ایک ہے، میری رائے میں اس کی موجودہ حالت کی ذمہ داری ہماری سیاسی اختلافات مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی نااہلیت پر عائد ہوتی ہے۔انہوں نے کہا کہ میرا ماننا ہے کہ پاکستان، امریکا اور چین کے درمیان بڑھتی کشیدگی کم کرنے میں اپنا کردار ادا کرسکتا ہے، 50 سال قبل پاکستان ہی تھا جس نے ہنری کسنجر اور چینی حکام کے مابین ملاقات کروا کر امریکا اور چین کے تعلقات قائم کروائے تھے اور مجھے امید ہے کہ ہم دوبارہ وہ کردار ادا کرسکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہم ایسا ملک بننے کے بجائے جو دیگر ممالک کے درمیان دشمنی میں حصہ دار بنتا ہے۔ ایسا ملک ہیں جو دیگر ممالک اور انسانیت کو قریب لاتا ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ یہی چیز برصغیر پر بھی لاگو ہوتی ہے، ہمیں اپنے مسائل تنازعات کے ذریعے نہیں بلکہ بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی ضرورت ہے۔قبل ازیں وزیراعظم عمران خان نے سری لنکا کے صدر گوٹابایا راجا پاکسے سے کولمبو کے صدارتی سیکریٹریٹ میں ون آن ون ملاقات کی۔خیال رہے کہ وزیراعظم عمران خان 23 فروری کو سری لنکا کے وزیراعظم مہندرا راجاپاکسا کی دعوت پر دو روزہ دورے پر سری لنکا پہنچے تھے۔واضح رہے کہ وزیراعظم کا دفتر سنبھالنے کے بعد عمران خان کا یہ پہلا دورہ سری لنکا ہے۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان کے دورے پر ابھی خبروں کا سلسلہ جاری تھا کہ سری لنکا پہنچنے سے قبل وہاں مقامی میڈیا پر ایسی خبریں سامنے آئیں کہ پاکستان کے وزیراعظم کا سری لنکا کی پارلیمان سے خطاب کا منصوبہ منسوخ کر دیا گیا ہے۔یہ بھی دعوے سامنے آئے کہ عمران خان کے خطاب کو منسوخ کیے جانے کے پس پشت انڈیا بتایا گیا ’پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان سری لنکا کی پارلیمان میں مسئلہ کشمیر اٹھا سکتے تھے اور یہ دہلی کو ناراض کرنے کے لیے کافی ہو سکتا ہے‘ جبکہ ایک دعویٰ یہ بھی کیا جا تارہا کہ عمران خان سری لنکا کی پارلیمنٹ میں وہاں کے مسلمانوں کے حقوق کے بارے میں بات کر سکتے تھے۔تاہم سری لنکا کی حکومت نے واضح کیا کہ خطاب کی منسوخی کووڈ 19کی پابندیوں اور ضابطہ کار کے باعث کی گئی۔کسی بھی ملک کے سربراہ کے لیے کسی دوسرے ملک کی پارلیمنٹ سے خطاب کرنا اعزاز کی بات سمجھی جاتی ہے۔ سری لنکا کی حکومت یہ اعزاز پاکستان کے وزیر اعظم کو دینا چاہتی تھی جو دونوں ممالک کے گہرے تعلقات کا کی عکاسی ہے۔
اگرپاکستان اور سری لنکا کے عسکری تعلقات کے بارے میں بات کریں تو لبریشن ٹائیگرز آف تامل ایلم (ایل ٹی ٹی ای) کے ساتھ جنگ کے دوران دونوں ملکوں کے تعلقات مزید مضبوط ہوئے۔ اس وقت پاکستان نے ایل ٹی ٹی ای سے مقابلہ کرنے کے لیے سری لنکا کی فوج کو اسلحہ فراہم کیا تھا۔اسی طرح 1971کے دور میں انڈیا نے مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) اور مغربی پاکستان میں تنازعات کے درمیان اپنی فضائی حدود کے استعمال پر پابندی عائد کر دی تھی۔ اس وقت سری لنکا نے مغربی پاکستان کو فضائی حدود فراہم کی تھیں۔پاکستان بھی سری لنکا کو بنیادی چھوٹے ہتھیار سپلائی کرتا رہا ہے۔ نیز دونوں ممالک کی مشترکہ فوجیں مشقیں بھی ہوتی رہی ہیں۔تاہم مارچ سنہ 2009 میں لاہور میں منعقدہ کرکٹ ٹیسٹ میچ کے دوران سری لنکن ٹیم کی بس پر شدت پسندوں کے حملے کے بعد کچھ کھلاڑیوں نے پاکستان میں کھیلنے سے انکار کر دیا تھا۔ سری لنکا کے کرکٹ بورڈ نے پاکستان جانے کا فیصلہ کھلاڑیوں کی ایما پر چھوڑ دیا تھا۔اس سلسلے میں انگریزی اخبار دی انڈین ایکسپریس کے قومی مدیر اور بین الاقوامی امور کی ماہر نیروپما سبرامنیم کا کہنا ہے کہ پاکستان اور سری لنکا کے درمیان بہت گہرے تعلقات رہے ہیں۔وہ کہتی ہیں کہ ’سری لنکا کے آزاد ہونے کے بعد سے ہی پاکستان اور سری لنکا کے مابین تعلقات رہے ہیں۔ ان دونوں کے درمیان کاروباری، عسکری، دفاعی اور ثقافتی ہر سطح پر اچھے تعلقات رہے ہیں۔ عسکری تعلقات زیادہ مضبوط ہیں۔ جس طرح انڈیا اور سری لنکا کے مابین تعلقات ہیں اسی طرح سری لنکا اور پاکستان کے بارے میں بھی کہہ سکتے ہیں۔‘’ایل ٹی ٹی ای کے خلاف پاکستان نے ہتھیاروں سے لے کر سری لنکا کی ہر طرح مدد کی تھی۔ سری لنکا کی فوج کی پاکستان میں تربیت ہوتی ہے۔‘تاہم نروپما سبرامنیم کا کہنا ہے کہ سری لنکا میں بنیادی ڈھانچے کی ترقی میں پاکستان کا اتنا کردار نہیں ہے جتنا انڈیا کا ہے۔ اس معاملے میں چین اور انڈیا مد مقابل ہیں۔اگر پاکستان اور سری لنکا کے عوام کے درمیان تعلقات کی بات کریں تو نروپما سبرامنیم کا کہنا ہے کہ سری لنکا کے عوام کا پاکستان میں خیر مقدم کیا جاتا ہے۔ سری لنکا کے لوگوں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں انھیں بہت پیار اور احترام ملتا ہے۔وزیر اعظم پاکستان عمران خان کا سری لنکا کا دورہ انڈیا پاکستان کے علاوہ خطے میں چین کے تناظر میں بھی دیکھا جا رہا ہے۔
سری لنکا کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے انڈیا اور چین کے درمیان غیر مستحکم صورتحال رہتی ہے۔ کبھی انڈیا اور کبھی چین کی مداخلت کی بات کہی جاتی ہے۔ دوسری جانب چین کی پاکستان سے قربت کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ ایسی صورتحال میں کیا عمران خان کا دورہ انڈیا کے لیے کوئی نیا چیلنج لے کر آ سکتا ہ۔ ویسے بھی ’پورے ایشیا میں تعلقات از سر نو طے ہو رہے ہیں،جنوب مشرقی ممالک میں چین اقتصادی اور سٹریٹیجک شعبوں میں مل کر کام کر رہا ہے۔ اگر ہم انڈیا کے تناظر میں سری لنکا اور پاکستان کو دیکھیں تو وہ چھوٹے ممالک ہیں اور سری لنکا میں پاکستان انڈیا کے لیے کوئی بڑا چیلنج پیش نہیں کرنے جا رہا ہے۔’لیکن سری لنکا میں راج پکشے برادران چین کے قریب سمجھے جاتے ہیں۔ سری لنکا کے انتخابات سے قبل انڈیا کی حمایت کہیں نہ کہیں سابق صدر میتریپال سری سینا کو حاصل تھی۔ حال ہی میں راج پکشے حکومت نے ٹریڈ یونینوں کی مخالفت کے بعد انڈیا کے ساتھ ایسٹ کنٹینر ٹرمینل معاہدہ منسوخ کر دیا تھا۔‘اگرچہ سری لنکا کی حکومت کو بھی انڈیا کی ضرورت ہے اور اس کے بارے میں مثبت علامات بھی سامنے آرہی ہیں۔ مہندا راج پکشے انڈیا کے دورے پر آ چکے ہیں انڈین وزیر خارجہ راج پکشے کے حکومت بنانے کے اگلے ہی دن وہاں پہنچ گئے تھے۔ان کا کہنا ہے کہ اگر تجارتی اور عسکری تعلقات کی بات کریں تو دونوں ممالک ایک ہی سطح پر ہیں۔ تجارت میں پاکستان کی برآمدات زیادہ ہیں۔ ایسی صورتحال میں کاروبار عمران خان کے اس دورے میں کوئی اہم مسئلہ نظر نہیں آتا ہے۔بہر حال سری لنکا اور پاکستان کے مابین اچھے تعلقات کے باوجود کچھ معاملات ایسے ہیں جن کو نظرانداز کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ایسی صورتحال میں اسلام اور مسلمانوں کا مسئلہ بار بار سامنے آتا ہے۔ پاکستان اور سری لنکا اس معاملے پر کھل کر حمایت یا مخالفت میں سامنے نہیں آتے ہیں۔ پاکستانی وزیر اعظم سری لنکا میں مسلمانوں کی صورتحال پر کبھی بیان نہیں دیتے ہیں۔ تاہم پاکستان اس کو مکمل طور پر نظرانداز بھی نہیں کرسکتا کیونکہ وہ مسلم دنیا کے قائد کی حیثیت سے نظر آنا چاہتا ہے اور چین کی طرح سری لنکا کا قرض دار بھی نہیں ہے۔ ایسی صورتحال میں اس دورے سے کوئی ٹھوس نتائج حاصل کرنا مشکل ہے۔دوسری جانب نروپما سبرامنیم کا خیال ہے کہ عمران خان کا یہ دورہ خارجہ تعلقات کو بہتر بنانے کی ایک کوشش ہے۔ جب سے وہ وزیر اعظم بنے ہیں انھوں نے دوسرے ممالک کا بہت کم دورہ کیا ہے۔ درمیان میں کورونا کی وبا بھی ایک بڑی رکاوٹ بن گیا۔ان کا خیال ہے کہ انڈیا اور پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات میں سری لنکا توازن رکھنا جانتا ہے۔ اسی کے ساتھ انڈیا سری لنکا میں پاکستان کو اپنا مد مقابل بھی نہیں مانتا ہے۔ لہذا اس سے انڈیا کو کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ پاکستانی وزیر اعظم سری لنکا کے دورے پر جا رہے ہیں کیونکہ مختلف ممالک کے وزیر اعظم کا ایک دوسرے ممالک کا دورہ کرنا معمول کی بات ہے۔توقع کی جاتی ہے کہ آنیوالے دنوں میں پاکستان اور سری لنکا کے تعلقات مزید مضبوط ہونگے اور اس سلسلے میں بھارتی میڈیا کی سازشیں کامیاب نہیں ہو پائیںگی۔
وزیر اعظم عمران خان کا موجودہ دورہ اس لیے بھی زیر بحث ہے کیوں کہ سری لنکا عسکری حکمت عملی کے لحاظ سے انڈیا اور چین کے لیے اہم ہے۔ دوسری طرف چین اور پاکستان کی دوستی انڈیا کے لیے ایک چیلنج بنی ہوئی ہے۔
اس کے متعلق جے این یو میں سینٹر فار ساوتھ ایشین سٹڈیز کے پروفیسر سنجے بھاردواج کا کہنا ہے کہ ’پورے ایشیا میں تعلقات از سر نو طے ہو رہے ہیں، خواہ اسلامی دنیا ہو یا جنوب مشرقی ممالک۔ چین اقتصادی اور سٹریٹیجک وجوہات کی بنا پر دوسرے ممالک کے ساتھ مل کر اپنا سپورٹ بیس بنا رہا ہے۔چنانچہ سری لنکا اور پاکستان کے تعلقات اس تناظر میں بھی خصوصی اہمیت کے حامل رہے ہیں۔پاکستان اور سری لنکا کے مابین تعلقات کو تجارت، دفاع اور ثقافتی شراکت کی سطح پر دیکھا جا سکتا ہے۔ سارک (ساؤتھ ایشین ایسوسی ایشن فار ریجنل کواپریشن) خطے میں سری لنکا کا دوسرا بڑا تجارتی شراکت دار پاکستان ہے۔ سری لنکا پہلا ملک ہے جس نے پاکستان کے ساتھ آزادانہ تجارت کا معاہدہ کیا ہے۔یہ معاہدہ سنہ 2005 میں ہوا تھا جس کے بعد دونوں ممالک کے مابین تجارت میں مزید اضافہ ہوا ہے۔پاکستان میں سری لنکا کے قونصل خانے کے مطابق سنہ 2005 میں دونوں ممالک کے درمیان تجارت 15 کروڑ 80 لاکھ ڈالر تھی جو سنہ 2018 میں بڑھ کر 50 کروڑ 80 لاکھ ڈالر ہوگئی۔ بہرحال، اگر تجارت کے توازن کی بات کی جائے تو یہ ہمیشہ ہی پاکستان کے حق میں رہا ہے۔ پاکستان کی برآمدات سری لنکا سے زیادہ رہی ہیں۔سری لنکا سے پاکستان کی درآمدات میں خشک ناریل، ایم ڈی ایف بورڈ، سپاری یعنی ڈلی، چائے،سلے کپڑے، صنعتی اور سرجیکل دستانے، کریپ اور شیٹ ربڑ، ڈبے، بکسے، بیگ، ناریل کا تیل، اور جانوروں کے چارے جیسی اشیاء شامل ہیں۔ان میں سے خاص طور پر سپاری یعنی ڈلی، حال میں خبروں میں زیادہ رہی ہے۔ انڈیا کے ساتھ کشیدگی کے سبب پاکستان میں انڈین سپاری کی برآمدات میں خلل پڑا تھا۔ پاکستان میں سپاری کی فراہمی اب سری لنکا سے ہوتی ہے۔سری لنکا سے پاکستان میں چائے کی برآمدات بھی بڑھی ہے لیکن پاکستان کی چائے کی مارکیٹ پر زیادہ تر کینیا کا قبضہ ہے۔سری لنکا کے قونصل خانے کی ایک رپورٹ کے مطابق سنہ 1984 تک پاکستان کو چائے کا سب سے بڑا سپلائی کرنے والا ملک سری لنکا تھا لیکن آہستہ آہستہ اس میں کمی واقع ہوتی گئی۔ پاکستان میں جس قسم کی چائے کا استعمال ہوتا ہے، چین اس قسم کی چائے کا صرف 10 فیصد پیدا کرتا ہے۔پاکستان سے سری لنکا کو برآمد کی جانے والی اشیا میں پورٹ لینڈ سیمنٹ، دوائیں، آلو، بنے ہوئے کپڑے، پائپ اور ٹیوب، بیڈ ٹیبل، کچن ٹوائلٹ لینن، چاول، ڈینم فیبرک، مچھلی وغیرہ شامل ہیں۔ممالک کے مابین دوطرفہ سرمایہ کاری انتہائی درمیانی سطح پر ہے۔ فی الحال سری لنکا میں پاکستانی سرمایہ کار کیمیکل، ربڑ، پلاسٹک، ٹیکسٹائل مینوفیکچرنگ، چرمی مصنوعات، خوراک اور مشروبات وغیرہ کے شعبوں میں کچھ منصوبوں پر کام کر رہے ہیں۔