پاک فوج وطن عزیز سے دہشتگردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑنے اور دیرپا امن و استحکام کے عزم پر کاربند ہے ہماری جانباز و جری سیکورٹی فورسز کی اوالعزمی کی بدولت ہی آپریشن رد الفساد کی کامیابی و کامرانی کے 4سال مکمل ہو گئے ہیں۔ آپریشن ردالفساد کے چار سال مکمل ہونے پر خطاب کرتے ہوئے پاک فوج کے ادارہ تعلقات عامہ کے ڈی جی میجرجنرل بابرافتخار نے کہا کہ ردالفساد کا بنیاد ی محور عوام ہیں ، مسلح افواج دہشتگردی کے خلاف جنگ کر رہی تھیں ،اسی مناسبت سے ہر پاکستانی نہ صرف اس آپریشن کا حصہ ہے بلکہ ہر پاکستانی رد الفساد کا سپاہی ہے۔آپریشن ردالفساد 2 نکاتی حکمت عملی کے تحت کیاگیا، پنجاب میں 34 ہزارسے زائدانٹیلی جنس بیسڈآپریشن ہوئے، بہت سے دہشتگردنیٹ ورکس کوختم کیاگیا، گوادرمیں ہوٹل پرحملے کوناکام بنایاگیا۔ پاکستان نے ملک سے دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے 27 فروری 2018ء کو کثیر الجہت آپریشن ردالفساد شروع کیا تھا۔ سکیورٹی فورسز نے ملک بھر میں تین لاکھ 75 ہزار سے زائد آپریشنز کئے۔ یہ سکیورٹی فورسز کی بے مثال قربانیوں اور عزم و حوصلہ کا ہی نتیجہ ہے کہ سرزمین پاک سے دہشت گردوں کا مکمل صفایا ہو چکا ہے۔ کچھ شرپسند عناصر سرحد پار فرار ہو چکے ہیں جو پاکستان کے لیے مسلسل خطرہ ہیں۔ پاکستان سرحدوں کو محفوظ بنانے کے لیے نہ صرف افغانستان بلکہ ایران کی سرحد پر بھی باڑ لگا رہا ہے تاکہ دہشت گردوں کی نقل و حمل کو روکا جا سکے۔ پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کو دنیا بھر میں سراہا جارہا ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ جب تک افغانستان میں پائیدار امن قائم نہیں ہوتا سرحد پار سے امن دشمن مسلسل پاکستان کے امن کو تباہ کرتے رہیں گے۔ افغان سرحد سے پاکستانی چوکیوں پر حملے اس کی مثال ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت سرحد کی کڑی نگرانی کے ساتھ افغانستان میں پائیدار امن کے لیے بھی کوشش تیز کرے تاکہ پاکستان کے ساتھ افغانستان میں بھی پائیدار امن قائم ہو اور پاکستان ترقی و استحکام کی منزل حاصل کر سکے۔ 2017 ء میں یہ آپریشن کیوں شروع کیا گیا ، ٹائمنگ بہت اہم ہے ، یہ آپریشن دہشتگرد اور انتہاپسندی کے خلاف ایسے وقت میں شروع کیا جب دہشتگردوں نے قبائلی اضلاع میں اپنے انفرسٹرکچر میں تباہی کے بعد پاکستان کے طول و عرض میں پناہ لینے کی کوشش کی ، دہشتگرد عبادت گاہوں ، کاروباری مراکز، بچوں اور خواتین کو نشانہ بنا کر زندگی کو مفلوج کرنے کی ناکام کوششیں میں مصروف تھے ، ایسے ماحول کو سامنے رکھتے ہوئے رد الفساد کا آغاز کیا گیا۔2010 ء سے 2017 ء تک میجر آپریشن کے بعد مختلف علاقوں کو دہشتگردوں سے کلیئر کروایا جا چکا تھا ، قبائلی علاقوں میں ریاست کی رٹ بحال ہو رہی تھی۔طاقت کااستعمال صرف ریاست کی صوابدیدہے ۔میجر جنرل بابرافتخار نے کہا کہ انٹیلی جنس ایجنسیوں نے بڑی قربانیاں دیتے ہوئے بڑے بڑے دہشتگرد نیٹ ورکس کو بے نقاب اور ان کا خاتمہ کرنے میں اہم کر دار ادا کیا۔ان کا کہنا تھا کہ آپریشن ردالفساد کے تحت خیبرفورآپریشن بھی کیاگیا، 750 کلومیٹررقبے پرریاست کی رٹ بحال کی گئی، 1684 کراس بارڈرواقعات ہوئے،پاک افغان بارڈرکام 84 فیصدمکمل کرلیاگیا، ملک بھرسے 72 ہزارسے زائدغیرقانونی اسلحہ برآمدکیاگیا۔انہوں نے کہا کہ 2017 ء سے اب تک سکیورٹی ونگزپرخاص طورپرتوجہ دی گئی اور 497 بارڈرٹرمینلزبھی تعمیرکیے جاچکے،قبائلی اضلاع میں ڈی مائننگ کی گئی جوبڑی پیشرفت ہے، 48 ہزاربارودی سرنگیں ریکورکی ہیں۔ 4 سال میں 37 ہزار 428پولیس اہلکاروں کوٹریننگ دی گئی، 3895 لیویزاہلکاروں کی ٹریننگ کی 344 دہشتگردوں کوسزائے موت دی گئی، دہشتگردوں کے اثاثوں کومنجمدکیاگیا،1200 سے زائدشدت پسندوں نے ہتھیارڈالے،417 کیسزملٹری کورٹس کومنتقل کیے، 195 دہشتگردوں کومختلف سزائیں سنائی گئیں، ٹارگٹ کلنگ پرموثرطریقے سے قابوپایا، دہشتگردوں کے بیانیے کوموثرطریقے سے ناکام بنایا ہے ،ردالفسادکے باعث کراچی کی صورتحال بہترہوئی،گوادر میں ترقیاتی کام ہو رہے ہیں اور کراچی میں امن ہے۔ آپریشن ردالفسادصرف فوجی پاکستان نے افغان امن کیلئے بہت مثبت کرداراداکیا،پوری دنیاافغان امن کیلئے پاکستان کے کردارکوسراہتی ہے۔یہ سب ہمارے فوجی افسروں اور جوانوں کی دن رات کی گئی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔