تجزیہ: محمد اکرم چودھری
بہت دیر کی مہرباں آتے آتے، دیر آئے درست آئے، پٹرولیم مصنوعات اور بجلی کی قیمتوں میں کمی اور آئندہ بجٹ تک قیمتوں میں اضافہ نہ کرنے کا اعلان خوش آئند تو ہے مہنگائی سے تنگ عوام کو کم از کم مختصر اور محدود مدت کے لیے کچھ سہولت تو ضرور ملی ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ اقدامات اپوزیشن کے دباؤ میں کیے گئے ہیں۔ گوکہ وزیراعظم عمران خان اور تحریک انصاف کی اعلیٰ قیادت کبھی نہیں مانے گی لیکن اس حوالے سے حکومت کی کوئی دلیل قابلِ قبول نہیں ہو گی اور کوئی یہ تسلیم نہیں کرے گا کہ پی ٹی آئی نے یہ فیصلے خالصتاً عوامی خدمت کے جذبے کو مدنظر رکھتے ہوئے کیے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کچھ بھی کہے حقیقت یہی ہے کہ اپوزیشن کا دباؤ ہے اور حکومت اس دباؤ کو محسوس بھی کر رہی ہے۔ بہرحال عوامی سہولت کے پہلو کو مکمل طور پر نظر انداز کرنے کے بعد لگ بھگ ساڑھے تین سال حکومت کرنے کے بعد حکومت نے عام آدمی کے لیے کچھ سہولت پیدا کی ہے لیکن یہ یاد رکھنا چاہیے کہ قیمتوں میں موجودہ کمی بے پناہ اضافے کے بعد کی گئی ہے۔ اگر یہ کمی نہ ہوتی مزید اضافہ ہوتا تو مہنگائی اور غربت میں مزید اضافہ ہوتا اور حکومتی نمائندوں کا عوام میں جانا ناممکن ہو جاتا۔ قیمتوں میں کمی کا فائدہ عوام تک پہنچنا چاہیے۔ حکومت ناجائز منافع خوری روکنے اور اپنی رٹ قائم کرنے میں ناکام رہی ہے۔ جہاں تک اپوزیشن کے دباؤ کا تعلق ہے اسے طعنہ بنانے یا طعنہ سمجھنے کے بجائے جمہوریت کا حسن سمجھنا چاہیے کیونکہ پارلیمانی طرز حکومت میں اپوزیشن کا یہی کردار ہوتا ہے۔ حزب اختلاف عوامی مسائل پر سیاست کرتے ہوئے حکومت کو عام آدمی کی فلاح و بہبود پر مجبور کرتی ہے۔ یہی جمہوریت کے تقاضے ہیں۔ پیکا آرڈیننس کے حوالے سے بھی وزیراعظم عمران خان نے خیالات کا اظہار کیا ہے اس میں کچھ شک نہیں کہ میڈیا کے لیے مکمل آزادی ہونی چاہیے لیکن یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ آزادی ذمہ داری کا تقاضا بھی کرتی ہے۔ خبر کے نام پر کسی کی بھی ذاتی زندگی کو تباہ کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ افسوس ہے کہ جن لوگوں نے تربیت یا رہنمائی کرنی ہے وہ بے چینی میں اضافے کا سبب ہیں۔