اسلام آباد (خبرنگار خصوصی) بھارت میں 2002ء کے دوران 790 مسلمانوں کے خون سے رنگے گجرات فسادات کو دو دہائیاں گزرنے کے بعد بھی نریندر مودی کی سرپرستی میں ہندو بالا دستی کے مذموم عزائم کے ساتھ بھارت مسلمانوں کی نسل کشی کے ہولناک راستے پر گامزن ہے۔ یہ فسادات 27 فروری 2002 کو گودھرا میں سبرمتی ایکسپریس ٹرین کو جلانے کے بعد بھڑک اٹھے تھے جس میں ہندو یاتریوں کو ایودھیا سے احمد آباد واپس لے جایا جارہا تھا۔ ایک اندازے کے مطابق تشدد کے دوران 230 مساجد اور 274 مزارات کو تباہ کیا گیا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق مسلمانوں کے خون سے ہاتھ رنگنے والا نریندر مودی گجرات کے فسادات میں سینکڑوں مسلمانوں کے قتل پر کچھ پشیمانی یا شرمندگی کے اظہار کے بجائے ابھی تک بی جے پی کے شدت پسندوں کی دہشت گردی کی سرپرستی جاری رکھے ہوئے ہے جس کا واحد مقصد ہندو بالادستی کے ذریعے تمام غیر ہندو برادریوں کا نسلی صفایا کرنا ہے،28 فروری 2002 کو احمد آباد کی گلبرگ سوسائٹی میں مارے گئے آنجہانی کانگریس لیڈر احسان جعفری کی اہلیہ ذکیہ جعفری نے کہا گجرات فسادات ایک سوچی سمجھی مذموم سازش تھی جس میں نریندر مودی کو خونریزی کا ذمہ دار قرار دیا گیا تھا۔28 جنوری 2020 کو بھارتی سپریم کورٹ نے 2002 کے گجرات قتل عام میں ملوث 14 مجرموں کو ضمانت دے دی جس نے بھارتی عدلیہ کے کردار پر بھی سوال اٹھایا۔ ہیومن رائٹس واچ کے ایشیا کے ڈائریکٹر بریڈ ایڈمز نے تبصرہ کیا کہ ریاست کی سرپرستی میں نسل کشی کے واقعات بھارت کے مختلف حصوں میں مذہبی اقلیتوں کے لئے انتہائی خطرے کو ظاہر کرتے ہیں۔ اب چونکہ مودی وزارت عظمی کی کرسی پر فائز ہیں، وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ ساتھ نظامی امتیازات، عوامی تقریروں کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا اور دیگر اقدامات کے ذریعے ہندوتوا کے نظریے کا پرچار کر رہے ہیں۔