آپ سمجھ رہے ہوں گے کہ پرویز خٹک بارے بات سب سے اخر میں ہو گی سرخی لکھی تو ترتیب یہی تھی لیکن کالم شروع کرتے ہی ذہن میں کچھ اور آیا تو سرخی نہیں بدلی لیکن ترتیب بدل دی اس کی وجہ بھی بہت دلچسپ ہے۔
پی ٹی آئی کے سینئر رہنما خیبر پختونخوا کے سابق وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے گذشتہ روز پورے پاکستان کے میڈیا کو "مسنگ" ماری۔ میڈیا میں اگر کوئی رپورٹر بریکنگ، ایکسکلوسیو سٹوری دے تو عمومی طور پر اس کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ چونکہ ایسی خاص سٹوری کسی دوسرے اخبار یا ٹیلیویژن چینل کے پاس نہیں ہوتی اس لیے بریکنگ دینے والا رپورٹر ذرا نمایاں ہوتا ہے۔ ویسے تو پرویز خٹک کا صحافت سے کوئی تعلق نہیں وہ سیاست دان ہیں لیکن گذشتہ روز کچھ وقت کے لیے ان کی طبیعت ایک رپورٹر جیسی ہوئی اور انہوں نے ہر قسم کی ہدایات کو نظر انداز کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کے خطاب کی اہم چیزیں عوام کے سامنے رکھ دیں۔ اس کے بعد سننے میں آیا ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے ناراضی کا اظہار کیا ہے۔ چونکہ مسلسل ساڑھے تین سال تک مہنگائی بم گرانے کے بعد عوام کو ریلیف کی بریکنگ وزیراعظم خود دینا چاہتے تھے لیکن پرویز خٹک بازی لے گئے۔ "پرویز خٹک ٹی وی" نے سب کو پیچھے چھوڑ دیا۔ آپ ٹیلیویژن چینلز پر اکثر سنتے ہوں گے کہ فلاں ٹی وی سب سے پہلے، فلاں ٹی وی سب سے پہلے لیکن گذشتہ روز اس معاملے میں صرف "پرویز خٹک ٹی وی" ہی نظر آیا کوئی ان کے قریب قریب بھی نہیں تھا۔ ان کی اس بریکنگ نے وزیراعظم کو بھی ہلا کر رکھ دیا کہ آخر یہ کیسے ہو گیا۔ بہرحال پرویز خٹک کو تیز رفتاری پر جرمانہ تو نہیں ہوا لیکن انہیں وارننگ جاری کر دی گئی ہے کہ ایسے کاموں سے باز رہیں۔ اب آپ اسے کسی اور انداز سے دیکھنے کا حق رکھتے ہیں لیکن میرے خیال میں اس میں تفریح کا پہلو ضرور نکلتا ہے۔ وہ پہلو جو میں نے آپ کے سامنے رکھا ہے اسے سنجیدہ تحریر کے طور پر مت دیکھیں۔ چونکہ ہمارے پاس تفریح کے مواقع اس حد تک کم ہو چکے ہیں کہ ہم ایسے واقعات سے ہی اپنے لیے تفریح کا سامان پیدا کر کے خوش ہوتے ہیں سو پرویز خٹک صاحب ہم آپ کے مشکور ہیں کہ ہمارے لہے تفریح کا سامان پیدا کیا۔ دیکھیں یہ بہت دلچسپ بات ہے کہ جب آپ ہر وقت یہ دیکھیں کہ سب جگہ پہلے نمبر پر آنے کی دوڑ ہے، ہر ٹیلیویژن چینل اس دوڑ میں آگے نکلنے کی کوشش کر رہا ہے اور نمبر ون بننے کے لیے کام کر رہا ہے تو دیکھنے والوں پر یہ اثر تو ہوتا ہے کہ وہ بھی کچھ ایسا کریں کہ نمبر ون بن جائیں پرویز خٹک بھلے تجربہ کار سیاستدان ہیں لیکن وہ ایک انسان بھی ہیں ان کے سینے میں بھی دل دھڑکتا ہے ان کا بھی دل چاہتا ہے کہ وہ نمبر ون ہوں اب اگر وہ سیاست میں نمبر ون نہیں بن سکے، وزارت میں نمبر ون نہیں بن سکے تو پھر انہوں نے یہی سوچا کہ چلو وزیراعظم کو "مسنگ" مارو تاکہ درجہ بندی میں نہ سہی عوامی سطح پر تو زیر بحث رہوں گا اور اس میں وہ کامیاب ضرور ہوئے ہیں کیونکہ ان کی خبر پر ایوانِ وزیراعظم نے بھی ایکشن لیا ہے۔ اس کامیابی پر وہ مبارکباد کے مستحق ہیں لیکن انہیں دوبارہ اس کام سے بچنا چاہیے کیونکہ خبروں کی دوڑ میں آگے نکلتے نکلتے کہیں وہ کابینہ سے ہی بہت دور نہ نکل جائیں کہ پھر ڈھونڈنے سے بھی نہ ملیں۔
سنجیدہ بات یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے اگر ردعمل دیا ہے تو انہیں بھی تحمل مزاجی کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا۔ سیاسی میدان میں یہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں اور ایسے کام ہوتے رہتے ہیں۔ پرویز خٹک ان کے اپنے ہیں اور اپنے لوگوں سے اس طرح ناراض نہیں ہونا چاہیے۔ایک خبر یہ بھی ہے کہ وزیراعظم عمران خان آج چودھری برادران سے ملاقات کر رہے ہیں۔ وزیراعظم کی یہ ملاقات گذشتہ چند روز میں اپوزیشن کی طرف سے چودھری شجاعت حسین اور چودھری پرویز الٰہی کے ساتھ ملاقاتوں کے نتیجے میں ہو رہی ہے۔ حزب اختلاف کی جانب سے ق لیگ کے رہنماؤں سے مسلسل ملاقاتوں کے بعد وزیراعظم عمران خان نے بھی چودھری برادران سے ملاقات کا فیصلہ کیا ہے۔چونکہ اپوزیشن حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کوششوں میں مصروف ہے۔ نمبروں کے اس کھیل میں ق لیگ اہم کھلاڑی بن گئی ہے۔ سابق صدر آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمان چوہدری برادران سے دو دو ملاقاتیں کر چکے ہیں جبکہ میاں شہباز شریف خاندانی اختلافات کو ایک طرف رکھتے ہوئے چودہ سال بعد چودھری برادران سے ملنے پہنچے۔ ان حالات میں وزیراعظم عمران خان کو خود حرکت میں آنا پڑا۔ حالات اتنی تیزی سے بدلے کہ کچھ باخبر دوست بتاتے ہیں کہ وزیراعظم عمران خان نے فوری طور پر لاہور دورے کا فیصلہ کیا ہے اور ق لیگ کی اعلیٰ قیادت سے ملاقات کے باعث وفاقی کابینہ کا آج ہونے والا اجلاس بھی ملتوی کردیا گیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان اپنے اہم اتحادیوں کے تحفظات سنیں گے اور اپوزیشن کا ساتھ نہ دینے جب کہ حکومت کے ساتھ چلتے رہنے کی درخواست بھی کریں گے۔ میرے لیے یہ ملاقات بڑی پیشرفت نہیں ہے کیونکہ حکومت کو اتحادیوں کے ساتھ قریبی رابطے میں رہنا چاہیے۔ یہ صورت حال پیدا ہی نہیں ہونی چاہیے کہ گلے شکوے کرنا پڑیں لیکن حکومت ہمیشہ اتحادوں کو صرف ووٹ کے لیے استعمال کرتی رہی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس ملاقات میں ق لیگ کیا سیاسی فائدہ حاصل کرتی ہے۔ وہ تجربہ کار سیاستدان ہیں ساتھ نبھاتے ہیں اور دوستوں کے ساتھ چلتے ہیں لیکن سیاسی حکمت عملی ہے بغیر فیصلے نہیں کرتے گوکہ ان کا حکومت سے علیحدگی کا زیادہ امکان نہیں ہے اور یہ بات وزیراعظم عمران خان بھی جانتے ہیں لیکن پھر بھی مشکل وقت میں ساتھ دینے والوں کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔دوسری طرف وزیراعظم عمران خان نے پیکا آرڈیننس پر بات کی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بہت سے کام اور قوانین ماضی میں بنے لیکن حکومت کے درجنوں ترجمان حکومتی موقف کو بہتر انداز میں میڈیا کے سامنے پیش کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ان درجنوں ترجمانوں کو بھی کسی ترجمان کی ضرورت ہے۔