اقبال ؒ، قائد اعظمؒ اور اسلامیت


چودھری رحمت علیؒ کی پاکستان نیشنل موومنٹ درحقیقت برصغیر میں ایک علیحدہ مسلم مملکت کے قیام کی جانب سفر کا ایک اہم سنگ میل ہے۔ دریں چہ شک کہ اسمِ پاکستان کے خالق جناب چودھری رحمت علی ہی تھے۔ لیکن یہ بھی پیش نظر رہے کہ 1868ء سے 1933ء تک بیشمار مسلم رہنماؤں، مصلحین اور مفکرین نے بالواسطہ تحریک پاکستان کو آگے بڑھانے میں فکری و نظری اور عملی میدانوں میں بساط بھر مساعی کیں۔
برصغیر کے یہ مسلم اکابرین متحدہ ہندوستان کی اس تقسیم کو فطری اور تاریخی تقسیم سے تعبیر کرتے رہے۔ متحدہ ہندوستان کے حامی جب اکھنڈ بھارت کا نعرہ بلند کرتے تو ان کی مضبوط ترین دلیل یہ ہوتی کہ برصغیر جغرافیائی طور پر ایک اکائی کی صورت نظر آتا ہے۔ شمال کی جانب فلک بوس پہاڑی سلسلے اس کی شمال مغربی سرحدوں کے چاق و چوبند محافظ ہیں تو باقی اطراف و جوانب کی حفاظت کی ذمہ داری بوڑھے بحرِ ہند کے جوان پانیوں نے لے رکھی ہے۔ متحدہ ہندوستان کے حامیوں کی اس دلیل کو کھلی آنکھیں رکھنے والے بے لاگ اور غیر جانبدار مورخ تسلیم نہیں کرتے۔ ان کا نقطہ نظر ہے کہ ’’برصغیر‘‘ جغرافیائی طور پر بھی ایک وحدت نہیں بلکہ دو بڑے حصوں میں تقسیم ہے، ایک وادی سندھ اور دوسرا مین لینڈ جس کو گنگا جمنا کی وادی قرار دیا جا سکتا ہے۔ 
دریائے سندھ اور دریائے گنگا کے منابع اگرچہ کم و بیش ایک ہی علاقے میں ہیں لیکن وہ فوراً ہی مختلف بلکہ متضادسمتوں میں بہنے لگتے ہیں۔ دریائے سندھ کشمیر، سرحد، پنجاب اور صوبہ سندھ سے گزرتا ہوا بحیرہ عرب میں جا گرتا ہے جبکہ گنگا خلیج بنگال کا رخ کرتا ہے نیز یہ کہ مین لینڈ کا مذہب اور تہذیب اور ہیں اور اس کا کوئی متبرک مقام ان علاقوں میں موجود نہیں ہے جنھیں برصغیر کے مسلمان ایک علیحدہ اسلامی مملکت میں شامل کرنے کے خواہش مند ہیں۔‘‘ 
(پاکستانی روح کی تلاش: قاضی جاوید ماخوذ از سہ ماہی ’’آواز‘‘ سلسلہ نمبر 2 صفحہ 241)
 آج خطے کے غیر جانبدار اور حقیقت شناس تجزیہ نگار بڑی قطعیت اور حتمیت کے ساتھ یہ رائے قائم کر چکے ہیں کہ اکھنڈ بھارت کے پرچارک ہندوؤں کے دعوے بے بنیاد تھے۔ یہ خطہ صدیوں سے دو واضح علاقوں ’’انڈک ریجن‘‘ اور انڈس ریجن‘‘ میں بٹا ہوا ہے۔ انڈک ریجن گنگا کے میدانوں اور جزیرہ نما ہند پر مشتمل ہے جبکہ انڈس ریجن دریائے سندھ اور اسکے معاون دریاؤں جہلم، چناب، راوی، بیاس اور ستلج کے علاقوں پر محیط ہے۔ فطری طور پر منقسم ان دونوں علاقوں کی ثقافت، معاشرت، تمدن اور نظمِ حکومت صدیوں سے منفرد اور متمیز رہے ہیں۔مارچ 1937ء میں علامہ اقبالؒ قائداعظمؒ کی توجہ ایک خط میں اہم سیاسی تغیرات کی جانب مبذول کراتے ہوئے رقمطراز ہیں:
مائی ڈیر مسٹر جناح!
اُمید ہے پنڈت جواہر لعل نہرو کا وہ خطبہ جو انہوں نے آل انڈیا نیشنل کا نونشن کے اجلاس میں دیا ہے آپ کے ملاحظہ سے گزرا ہو گا اور ہندوستانی مسلمانوں سے متعلق اس خطبہ میں جو مسلک کارفرما ہے اس پر آپ نے پورے طور پر غور کیا ہو گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ آپ کو اس امر کا بخوبی اندازہ ہے کہ ہندوستان اور اسلامی ایشیا کی آئندہ سیاسی ترقیات کے پیش نظر دستور جدید ہندی مسلمانوں کو اپنی تنظیم کیلئے ایک نادر موقع بہم پہنچاتا ہے۔اگرچہ ہم ملک میں تمام ترقی پسند پارٹیوں کے ساتھ موالات کیلئے تیار ہیں۔ تاہم ہمیں اس حقیقت کو ہرگز پسِ پشت نہ ڈالنا چاہیے کہ ایشیا میں اسلام کے اخلاقی و سیاسی اقتدار کا دار و مدار تمام تر ہندوستانی مسلمانوں کی مکمل تنظیم پر ہے۔ لہٰذا میری تجویز ہے کہ آل انڈیا نیشنل کانونشن کو ایک پرزور جواب دیا جائے۔ آپ کو چاہیے کہ دہلی میں جلد از جلد ایک آل انڈیا مسلم کانونشن منعقد کریں۔ 
یہ امر لابدی ہے کہ ہندوستان اور بیرونِ ہندوستان دنیا کو صاف صاف بتا دیا جائے کہ ہندوستان میں حل طلب مسئلہ صرف معاشی ہی نہیں ہے بلکہ ہندی مسلمانوں کی اکثریت کی نگاہ میں ہندوستان میں تہذیب اسلامی کا مستقبل اس سے کسی طرح کم اہمیت کا حامل بھی نہیں۔
مخلص محمد اقبال
(اقبال نامہ یعنی مجموعہ مکاتیب اقبال : مرتبہ شیخ عطاء اللہ ص 11-10-9)
21 جون 1937ء کو علامہ اقبالؒ نے قائداعظمؒ کے نام ایک خط میں لکھا: ’’ایسے وقت میں جبکہ شمال مغربی ہندوستان یا شاید پورے ہندوستان میں ایک طوفان آنے والا ہے آپ واحد شخصیت ہیں جن سے مسلمان صحیح رہنمائی کی توقع کرتے ہیں۔‘‘
10 اگست 1937ء کے ایک گرامی نامہ میں تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کے پیش نظر قائداعظمؒ کی توجہ اس امر کی جانب مبذول کراتے ہیں : ’’واقعات نے بالکل واضح کر دیا ہے کہ لیگ کو اپنی تمام تر توجہ شمال مغربی ہندوستان کے مسلمانوں پر مبذول کرنی چاہیے۔‘‘ (ایضاً ص 24)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (جاری)

ای پیپر دی نیشن