وزیر اعظم کے دورۂ روس کی ٹائمنگ


ہمارے افلاطون اور بقراط آج تک سر پیٹ رہے ہیں کہ لیاقت علی خان نے روس کا دورہ کیوں نہ کیا ،یہی افلاطون اور بقراط آج اپنا سر پیٹ رہے ہیں کہ وزیر اعظم عمران خان روس کے دورے پر کیوں چلے گئے۔ اور وہ بھی اس وقت جب روس نے یو کرین کے خلاف جارحیت کا آغاز کردیا ۔یہی افلاطون اور بقراط دہائی دے رہے ہیں کہ جب بر اعظم امریکہ ،بر اعظم یورپ، بر اعظم آسٹریلیا،بر اعظم افریقہ اور بر اعظم ایشیا بیک زبان روسی جارحیت کی مذمت کررہے ہیں تو پاکستان کیوں خاموشی اختیار کیے بیٹھا ہے ۔اس سے ہم پوری دنیا میں سفارتی طور پر تنہا ہو کر رہ گئے ہیں ، ہمارے افلاطون اور بقراط بھول گئے ہیں کہ جب عراق کے صدام حسین نے کویت پر برق رفتار یلغار کرکے قبضہ کر لیا تھا تو پوری قوم صدام حسین کی تصویریں اٹھائے سڑکوں پر مٹھائیاں اور حلواے بانٹ رہی تھی اور کویت پر جارحیت کرنے والے صدام حسین کے حق میں گلے پھاڑ کر نعرے لگا رہی تھی۔ہماری قوم کے افلاطون اور بقراط بھول گئے ہیں کہ نائن الیون کے بعد امریکہ اور نیٹو فورسز نے افغانستان کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کیا تو پاکستان اچھل کر امریکہ اور نیٹو کی گود میں جا بیٹھا تھا اور ہم پچھلے اٹھارہ برس سے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے میں مصروف ہیں۔امریکہ شکست کھا کر خطے سے بھاگ گیا ہے لیکن دہشت گردوں کے اڈے اسی طرح موجود ہیں اور دنیا کی طاقتیں پاکستان کو سبق سکھانے پر تلی ہوئی ہیں۔عمران خان حیران ہو کر پوچھتا ہے کہ پاکستان امریکہ کا کیسا حلیف تھا کہ امریکہ اس پر ڈرون حملے کر رہا تھا اور کروز میزائل داغ رہا تھا ۔اسی امریکہ نے ایبٹ آباد پر حملہ کرکے اسامہ کو شہید کرنے کا دعویٰ بھی کیا ۔
وزیر اعظم عمران خان ایک طے شدہ دورے کو کیوں منسوخ کرتے ،75برس بعد پاکستان کو موقع ملا ہے کہ وہ ایک غیر جانبدار خارجہ پالیسی پر عمل کرے اور امریکی کیمپ سے جان چھڑائے ۔ وزیر اعظم عمران خان پاکستان کو غیر جانبدار رکھنے کے لیے ایک سوال کے جواب میں کہہ چکے ہیں کہ امریکہ کو پاکستان میں اڈے دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ان کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ(Absolutely Not) تاریخ کے صفحات پر ہمیشہ گونجتے رہیں گے ۔
ہمارے افلاطون اور بقراط یقینی طور پر یہ جان کر اپنے منہ پر کالک مل رہے ہوں گے کہ امریکہ کا نیا نیا حلیف بھارت سلامتی کونسل کے اس اجلاس سے غیر حاضر رہا جس میں روس کے خلاف قرار داد پیش کی گئی تھی ۔اس قرار داد کا روس کے مستقل ممبر ہونے کی صورت میں وہی حشر ہوا جو ہونا چاہئے تھا کہ روس نے اسے ویٹو کر دیا اور یوں سلامتی کونسل روس کی مذمت کرنے میں ناکام رہی ۔کوئی ہمارے افلاطونوں اور بقراطوں سے پوچھ سکتا ہے کہ سوا ارب آبادی والا سب سے بڑی جمہوریت کہلانے والا بھارت سلامتی کونسل کے اجلاس سے غائب کیوں ہوا۔کیا اسے معلوم نہیں تھا کہ وہ عالمی برادری میں تنہا ہو کر رہ جائے گا ۔نکو بن جائے گا۔
امریکہ اس وقت اصول پرست بنا ہوا ہے اور اس کا کہناہے کہ وہ روس کو اس کی جارحیت کا مزہ چکھائے گا ۔ مگر امریکہ بھول جا تا ہے کہ اس نے ہیرو شیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم پھینک کر کس ودر لرزہ خیز جارحیت کا ارتکاب کیا تھا ۔امریکہ بھول جاتا ہے کہ اس نے ویتنام کے جنگلوں میں ہو چی منہ کا تعاقب کرکے دو عشروں میں اس ملک کو خاک سیاہ کردیا تھا اور بالآخر اسے شکست کا منہ دیکھنا پڑا تھا ۔امریکہ بھول گیا ہے کہ اس نے افغانستان ، عراق ، شام ، لیبیا ،مصر، کمبوڈیا کا حشر نشر کر دیا تھا ۔نیٹو فوسز بھی کئی مرتبہ اس کے جنگی جرائم میں شریک رہیںمگر آج وہ بڑا اصول پسندی اختیار کر رہا ہے کہ کسی ایک ملک کو دوسرے ملک پر جارحیت نہیں کرنی چاہئے ۔یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر روس کو یوکرین کے خلاف جنگی آپریشن کیوں کرنا پڑا ۔اس سوال کا جواب اتنا مشکل بھی نہیں ۔روسی صدر پیوٹن کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ یوکرین کو نیٹو میں شامل نہ کیا جائے کیونکہ ایسا ہونے کی صورت میں نیٹو فورسز اس کی بغل تک آ گھستیں ،یہاں بنیادی سوال یہ بھی ہے کہ جب افغان جہاد کے بعد مشرقی یورپ اور سوویت روس کے ٹکرے ٹکرے کر دیے گئے تھے تو پھر نیٹو کے وجود کو برقرار رکھنا کیوں ضروری ہے ۔صاف ظاہر ہے کہ امریکہ کے لیے باقی ماندہ روس کا وجود بھی ناقابل برداشت ہے اور وہ اس سرد جنگ کو جاری رکھنا چاہتا ہے جس نے بد قسمتی سے دنیا کو دوحصوں مین تقسیم کر دیا تھا ۔سوویت روس کے حصے بخرے ہونے کے بعد نیٹو کو بھی کسی قبر میں دفنا دینا چاہئے تھا مگر امریکہ نے ایسا نہیں ہونے دیا ۔اور اس نے یورپ کے جنگجو جراثیم زندہ رکھے ۔صاف ظاہر ہے کہ جب روسی صد پیوٹن کے مطالبے پر یو کرین کان دھرنے کو تیار نہیں تھا اور وہ نیٹو کا حصہ بننے کے لیے بصد خوشی تیار تھا تو روس کی جگہ کوئی دوسرا ملک بھی ہوتا تو وہ یوکرین کے فیصلے کو برداشت نہ کرتا ۔غیر جانبدار عالمی تجزیہ کار سچ کہہ رہے ہیں کہ امریکہ اور نیٹو نے روس کو اس جنگ میں دھکا دیا ہے۔
میں نے اپنے افلاطونوں اور بقراطوں کو میڈیا کی چھوٹی سکرینوں پر آنسو بہاتے دیکھا ہے کہ روس نے یوکرین پر بلا وجہ جارحیت کا آغاز کیا ہے ۔میں ان مبینہ دانشوروں سے پوچھتا ہوں کہ کیا روس نے دس لاکھ فوج یوکرین میں داخل کردی ہے اور کیا وہ یوکرین میں آبادی کا تناسب بدلنے کے لئے مکرو فریب کی چالیں چل رہا ہے۔ہمارے پڑوس میں مقبوضہ کشمیر کی ایک چھوٹی سی وادی ہے جہاں دس لاکھ بھارتی فوج کا تسلط ہے ۔ہر مسلمان کے سر پر ایک فوجی سنگینیں تانے کھڑا ہے ۔اتنی بھاری فوج کے طاقت کے بل بوتے پر بھارت نے اپنے آئین سے آرٹیکل تین سو ستر کا خاتمہ کرکے کشمیر کو اپنے جغرافیے کا حصہ بنا لیا ہے جبکہ یہ علاقہ آج بھی اقوام متحدہ کے ریکارڈ میں متنازعہ ہے ۔میں نے اپنے افلاطونوں اور بقراطوں کو بھارت کے اس وحشیانہ اقدام پر ٹسوے بہاتے نہیں دیکھا مگر انہیں یوکرین کا غم ہلکان کیے جا رہا ہے۔مجھے نہیں معلوم کہ روس اور یوکرین کی جنگ کا نتیجہ کیا ہوگامگر مجھے یہ علم اچھی طرح ہے کہ بھارت اپنی وحشیانہ طاقت کے بل بوتے پر کشمیر پر قابض ہوچکا ہے ۔یو کرین کے پاس اپنے دفاع کے لیے فوجیں موجود ہیں مگر میرے مظلوم کشمیری عوام نہتے ہیں ،میں اپنے افلاطونوں اور بقراطوں سے کہتا ہوں کہ وہ سارے آنسو یو کرین کے دکھ میں ضائع نہ کریں چند قطرے بچا لیں اور بھارتی ظلم و ستم اور جبر و تشدد کا شکار کشمیریوں کی بد قسمتی پر بھی ضرور بہائیں ۔ 
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن