وزیراعظم جلد پٹرول اور بجلی کے نرخوں میں کمی کا اعلان کریں گے‘ پرویز خٹک
وزیراعظم کیا کریں گے یا کہیں گے۔ یہ تو عوام کو پتہ چل چکا ہو گا مگر گزشتہ روز وزیر دفاع پرویز خٹک نے پٹرول اور بجلی کی قیمت میں کمی کا مژدہ سنا کر نوشہرہ کے حاضرین جلسہ کا لہو نہیں گرمایا بلکہ خبر پڑھنے اور سننے والے کروڑوں نہ سہی لاکھوں پاکستانیوں کا دل ضرور جیت لیا ہے۔ خدا کرے ان کا یہ کہنا سچ ثابت ہو۔ ایسا ہوا تو لوگ دل سے وزیراعظم سے زیادہ وزیر دفاع کو دعائیں دیں گے جنہوں یہ مژدہ پہلے سنایا ہے کہ وزیراعظم اپنے خطاب میں پٹرول اور بجلی کی قیمت کم کرنے کا اعلان کریں گے۔ اس کے علاوہ انہوں نے بی اے۔ بی ایس پاس بے روزگاروں کے لیے 10 سے 20ہزار روپے ماہانہ بے روزگاری الاؤنس کی بھی خوشخبری دی ہے۔ خدا کرے ایسا ہو تو اس سے لاکھوں بے روزگار پریشان حال نوجوانوں کی ڈھارس بندھے گی۔ ایک فلاحی ریاست کا کام ہی یہی ہے کہ وہ اپنے عوام کو خاص طور پر محروم اور کم آمدنی والے طبقات کو سہولتیں فراہم کرے تاکہ وہ زندگی کی دوڑ میں مزید پیچھے نہ رہ جائیں۔ مراعات یافتہ طبقات تو کسی نہ کسی طرح گزر بسر کر لیتے ہیں۔ مگر سفید پوش اور غریب طبقہ شدید مشکلات کا شکار رہتا ہے۔ بے روزگاری سے یہی لوگ زیادہ متاثر ہوتے ہیں کم پڑھے لکھوں کو مزدوری اور نوکری نہیں ملتی۔ پڑھے لکھے گریجویٹس ڈگریاں تھامے سڑکیں ناپتے نظر آتے ہیں۔ ایسے نوجوان آسانی سے غلط جرائم پیشہ لوگوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔ اب انہیں بے روزگاری الاؤنس دے کر غلط ہاتھوں میں جانے سے بچانے میں مدد ملے گی۔
٭٭٭٭
دادو خیل میں چاپری ڈیم افتتاح سے پہلے ہی ٹوٹ گیا
یوں کہہ لیں ساڑھے تین ارب روپے کھوہ کھاتے میں چلے گئے۔ یہ علاقے میں صاف پینے کے پانی کے حصول کے لیے بنایا گیا ڈیم اگر مضبوط ہوتا اور اس میں پانی برداشت کرنے کی سکت ہوتی تو اس میں 30 فٹ چوڑا شگاف نہ پڑتا۔ پانی نے ناقص میٹریل سے تعمیر ہونے والے اس ڈیم کا پول کھول دیا جو تکمیل کے آخری مرحلے میں تھا اور جلد ہی اس کا افتتاح ہونا تھا۔ دیوار ٹوٹنے سے بہنے والے پانی کی زد میں آ کر کنٹریکٹر کی گاڑیاں اور سامان بھی بہہ گیا ہے۔ صرف سامان ہی نہیں اس دشوار گزار پسماندہ علاقے کے ہزاروں باسیوں کا پینے کے صاف پانی کے حصول کا خواب بھی بہہ گیا جو صدیوں سے پینے کے صاف پانی کو ترستے تھے۔ بڑے دکھ کی بات یہ ہے کہ یہ علاقہ وزیر اعظم کا آبائی حلقہ ہے۔ دیکھ لیں تعمیراتی شعبے کی خرمستیاں۔ انہوں نے اس حساس علاقے میں بھی ڈنڈی مارنے سے دریغ نہیں کیا اور ساڑھے تین ارب کا حکومت پنجاب کو ٹیکہ لگا دیا اور ڈیم آزمائشی طور پر پانی بھرتے ہی بہہ گیا۔ اب وزیر اعلیٰ پنجاب کیا اس معاملے پر صرف نوٹس لیں گے۔ کمیٹی بنائیں گے یا حقیقت میں اس معاملے پر سخت ایکشن لیں گے۔ یہ معمولی بات نہیں حکومت پنجاب کی ساکھ کاسوال ہے۔ اگر وزیر اعظم نے جو لاہور دورے پر آ رہے ہیں اس بارے میں پوچھ لیا تو کون جواب دے گا کس کے پاس اس کا جواب ہو گا۔ جب تک ہم اپنے منظور نظر کرپٹ ٹھیکیداروں سے جان نہیں چھڑاتے اربوں کھربوں روپے یونہی تعمیراتی کاموں کے نام پر ضائع ہوتے رہیں گے۔ یہ وہ جونکیں ہیں جو ہر حکومت کو چمٹی رہتی ہیں اور خوب پھلتی پھولتی ہیں۔
٭٭٭٭٭
لاہور قلندرز کی جیت پر سوشل میڈیا دلچسپ تبصروں سے بھر گیا
لاہور واقعی زندہ دلوں کا شہر ہے۔ گزشتہ شب قذافی سٹیڈیم میں پورے پاکستان سے کرکٹ کے شائقین جس بڑی تعداد میں جمع تھے۔ اس نے ثابت کر دیا کہ پاکستانی کھیلوں سے محبت کرنے والے لوگ ہیں۔ کھیل کے اختتام پر جو خوبصورت مناظر سامنے آئے وہ اپنی جگہ اور آتش بازی اپنی جگہ۔ مگر جس طرح لاہور قلندرز کے شاہین آفریدی نے ملتان سلطان کے کپتان محمد رضوان کو میچ جیتنے کے بعد گلے لگایا اور گود میں اُٹھایا وہ ان کی سپورٹس مین شپ کا آئینہ دار ہے۔ یہ محبت اور عزت ہی انسان کو محبوب بناتی ہے۔ محمد رضوان بھی حقیقت میں ایک نرم اور خوبصورت دل والے انسان ہیں جو قدم قدم پر اپنی ٹیم کے کھلاڑیوں کا حوصلہ بڑھاتے رہے۔
لاہور قلندرز کی اس جیت پر جو ایک سنسی خیز مقابلے کے بعد ان کے حصے میں آئی سوشل میڈیا پر طرح طرح کے تبصرے پڑھنے کو مل رہے ہیں۔ ایک نے لکھا ہے جن لوگوں نے جب تک لاہور قلندر نہ جیتے شادی نہیں کریں گے کا فیصلہ کیا تھا اب ان کا وقت آ گیا وہ بھی بیاہ رچا لیں۔ ایک نے لکھا ہے کہ بار بار لاہور قلندر کے ہارنے سے جن کے دل ٹوٹتے رہتے تھے اب ان کے دل جڑ گئے ہونگے۔ فواد چودھری نے بھی دلچسپ شاعرانہ تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے
محبت کب کسی اور سے ہے
یہ سر پھری بھی لاہور سے ہے
جوش جذبہ محبت وارفتگی یہ لاہور کی وہ سوغاتیں ہیں جو یہاں آنے والے کو بے ساختہ ’’لہور لہور اے‘‘ کہنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔
٭٭٭٭٭
حجاب کے بعد اب پگڑی کی شامت سکھ طلبہ و طالبات کو سکول میں داخلے سے روک دیا
کرناٹک میں مذہبی تعصب اور ہندو انتہا پسند جنونیوں کی بھڑکائی ہوئی آگ اب حجاب سے نکل کر سکھوں کی پگڑی تک جا پہنچی ہے۔ کرناٹک میں ہی مسلم طالبات کو سکارف یا حجاب پہن کر سکول کالجز میں داخل ہونے سے روکنے کے بعد سکھ طالبات اور طلبہ جو پگڑی باندھتے ہیں کو بھی سکول میں داخل ہونے سے روک دیا گیا جس پر شرومنی گودوارہ پر بندھک کمیٹی نے شدید احتجاج کرتے ہوئے کرناٹک کے وزیر اعلیٰ کو خط لکھا ہے اور اپنے بیان میں اس پابندی کو سکھوں کی مذہبی آزادی پر حملہ قرار دیا ہے۔ یہی بات حجاب کے مسئلہ پر مسلمان بھی کرتے آ رہے ہیں مگر مودی حکومت اور مختلف ریاستوں میں قائم انتہا پسند وزرائے اعلیٰ کے کانوں پر جوں نہیں رینگ رہی۔ اب اگر یہ سلسلہ روکا نہیں گیا تو جلد ہی بھارت میں عیسائی راہبائوں (ننوں)پر بھی سر ڈھانپے سکارف اوڑھنے پر پابندی لگ سکتی ہے۔ یوں ہندو انتہا پسندی کا یہ بدمست ہاتھی نجانے کہاں کہاں تباہی پھیلاتا پھرے گا۔ جانور جب پاگل ہو جائے تو اس کا ایک ہی علاج ہوتا ہے کہ اسے گولی مار دی جائے ورنہ وہ انسانی جانوں کے لیے خطرناک ثابت ہوتا ہے۔ اب اگر بھارت میں موجود اقلیتیں جن میں مسلمان، سکھ اور عیسائی شامل ہیں۔ ہندو توا کے اس سیلاب کے آگے بند باندھنے پر متحد نہ ہوئے تو ایک ایک کر کے یہ جنونی انتہا پسند حجاب، پگڑی اور سکارف اتاروا کر ہی دم لیں گے۔ کیا معلوم کل انہیں مذہب تبدیل کرنے پر بھی مجبورکیا جائے جس کا اندازہ ’’ہندوستان میں رہنا ہے تو ہندو بن کر رہنا ہے‘‘ کے نعرے سے لگایا جا سکتا ہے۔
٭٭٭٭٭