اوپن ایر کامیڈی شو 


حالات اتنے زیادہ خراب نہیں ہیں جتنے ہم سمجھ رہے ہیں، سچ یہ ہے کہ حالات اس سے کہیں زیادہ خراب ہیں جتنے ہم سمجھ رہے ہیں۔ پھر بھی کوئی نہ کوئی مزے کی بات ایسی مل جاتی ہے جو ذرا کی ذرا توجہ حالات کی گھمبیرتا سے ہٹا دیتی ہے۔ 
کل ایک شناسا سے ملاقات ہوئی۔ باتوں باتوں میں بتایا کہ وہ بھارت کی کامیڈی فلموں کے شوقین ہیں لیکن نیٹ سے ان کا ماسٹر پرنٹ نہیں، کیمرا پرنٹ ڈھونڈ کر ڈاﺅن لوڈ کرتے ہیں۔ وجہ یہ بتائی کہ چونکہ کیمرا پرنٹ سنیما سکرین سے لیا جاتا ہے اس لئے پہلی صفوں کے ”باشعور“ تماشائیوں کی آوازیں بھی پرنٹ میں ریکارڈ ہو جاتی ہیں۔ چنانچہ ان کے ہنسنے اور تالیاں پیٹنے سے مجھے پتہ چل جاتا ہے کہ کامیڈی سین چل رہا ہے اور میں بھی ہنسنے لگتا ہوں۔ ماسٹر پرنٹ میں یہ بات نہیں ہوتی۔ 
کامیڈی سین کا پتہ چلانے کیلئے کیا پتے کا گر دریافت کیا ہے۔ سنجیدہ بات یہ ہے کہ آج کل کامیڈی فلمیں اتنی ”بلند پایہ“ ہوتی ہیں کہ درمیانی سمجھ بوجھ والے حضرات کے اوپر سے ہی گزر جاتی ہیں۔ صرف ”صف اوّل“ کے تماشائی (جو ہمارے زمانے میں ڈیڑھ یا شاید دو روپے والی کلاس کے نام سے جانے جاتے تھے) ہی ان کے مزاحیہ مناظر کا پتہ پا سکتے ہیں۔ 
بہرحال، پاکستان کے ”اوپن ایر سنیما“ میں جو مزاحیہ فلم چل رہی ہے، اسے سمجھنے کے لیے کیمرہ پرنٹ تلاش کرنے کی ضرورت نہیں، اس کے ”سچل“ اور ماسٹر پرنٹ لائیو چل رہے ہیں اور ان کی کامیڈی سے ہر خاص و عام یکساں مزے لے رہا ہے۔ ایک سے ایک مزاحیہ سین سپرہٹ ہو رہا ہے۔ سب سے مزاحیہ ڈائیلاگ یہ تھا کہ ہم نے تو علامتی گرفتاری دینا تھی، انہوں نے تو سچ مچ پکڑ لیا۔ اعظم سواتی کا یہ ڈائیلاگ بھی خوب چلا کہ میرا نام تو ویٹنگ لسٹ میں تھا، مجھے بھی پکڑ لیا۔ پشاور کے علی امین گنڈاپوری نے اپنے مزاحیہ ڈائیلاگ میں تھوڑی دانشمندی بھی بھر دی۔ کہا، حالات خراب ہیں، میں بھی گرفتار ہو گیا تو حالات اور زیادہ خراب ہو جائیں گے۔ اس لئے میں تو گرفتاری نہیں دے رہا۔ 
ان کا یہ ڈائیلاگ پورے پختونخوا میں اتنا مقبول ہوا کہ مقبول ترین اقوال زریں میں شامل ہو گیا چنانچہ پورے صوبے سے ابھی تک ایک بھی گرفتاری نہیں ہوئی۔ 
_______
ایک بھی گرفتاری تو بلوچستان اور سندھ سے بھی نہیں ہوئی۔ صرف پنجاب کے دو تین شہروں سے بیس بائیس کے حساب سے کچھ لوگ پکڑے گئے حالانکہ خان صاحب نے 22 سے نہیں، پورے 22 کروڑ عوام سے گرفتاری مانگی تھی۔ اس سے پہلے انہوں نے 22 کروڑ عوام سے باہر نکل آنے کو کہا تھا لیکن نکلنے والوں کی تعداد درجنوں سے آگے نہیں بڑھی۔ 
”فلم“ چل رہی ہے اور لوگ ایسے مزے سے دیکھ رہے ہیں کہ غم جاناں یاد رہا نہ غم درداں ۔ حال کا ملال اور استقبال کا وبال ، سب کچھ نظروں سے اوجھل ہو گیا، گھڑی بھر کیلئے ہی سہی! 
_______
گرفتاری دینے والوں میں ولید اقبال بھی شامل ہیں، مرحوم ڈاکٹر جاوید اقبال فرزند اقبال کے صاحبزادے۔ ان کی والدہ محترمہ جسٹس ریٹائرڈ ناصرہ اقبال سے دریافت کیا گیا کہ کیا ماجرا ہے تو فرمایا کہ غلط کیا جو گرفتاری دی۔ پھر انہوں نے قائد حقیقی آزادی عمران خان کا نام لئے بغیر ”تنقید خفی“ کی، فرمایا کہ جیل بھرو تحریک تو گاندھی نے چلائی تھی اور سب سے پہلے خود گرفتاری دی تھی۔ یہاں تو معاملہ الٹ ہے۔ 
دراصل محترمہ یہ بات نہیں سمجھ سکیں کہ خان صاحب نے تاریخ، فزکس اور دیگر علوم و فنون کی طرح سیاست کے مبادیات بھی بدل ڈالے ہیں۔ دراصل، سیاست کے ”آئن سٹائن“ ہیں۔ آئن سٹائن نے جب اپنا ایٹمی ماڈل پیش کیا تو ردر فورڈ اور بوھار کے ایٹمی ماڈل فرسودہ اور ناقص قرار پائے۔ خان صاحب نے تحریک چلانے کا نیا ماڈل دیا ، یہ کہ لیڈر گھر بیٹھے، ورکر باہر نکلے یا جیل جائے۔ اس سے پہلے وہ بہادر لیڈر کے بے نظیر، نواز شریف، بھٹو ماڈل فرسودہ قرار دلوا چکے ہیں۔ اب بہادر لیڈر اسے کہتے ہیں جو بلٹ پروف گھروں میں ڈٹ جائے۔ 
انہوں نے طبّی حرکیات بھی بدل ڈالیں۔ جیسے زخم انہیں وزیر آباد میں آئے، وہ چند ہفتوں میں بھر جاتے ہیں، یہ طبّی سائنس کا دعویٰ تھا جو غلط نکلا۔ عمرانی دریافت یہ ہے کہ مہینوں لگ جاتے ہیں بلکہ بات برسوں تک بھی جا سکتی ہے۔ کل بنکنگ کورٹ میں وکیل نے بتا دیا کہ ابھی مزید وقت لگے گا۔ سچ پوچھئے تو ڈی این اے کے بعد ہونے والی یہ دوسری بڑی دریافت ہے۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ روشنی کی رفتار، ممالک کی باہمی سرحدوں، تاریخی واقعات، جغرافیہ اور روحونیات سمیت خان صاحب اتنی ”تحقیقات جدیدہ و صحیحہ“ دریافت کر چکے ہیں کہ علم و دانش کا مرتبان پوری طرح بھر چکا ہے، چھلکا ہی چاہتا ہے۔ 
_______
ایک درمیانے یا کم درمانے درجے کا دھماکہ ریٹائرڈ جنرل امجد شعیب کی گرفتاری کی صورت میں ہوا۔ کچھ لوگوں نے اسے ”انقلاب“ سانحہ قرار دیا کہ ایک ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل کی گرفتاری کا یہ پہلا واقعہ ہے۔ 
حالانکہ نہیں ہے۔ بے نظیر شہید کی پہلی وزارت عظمیٰ میں ایک ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل فضل حق نہ صرف گرفتار ہوئے بلکہ سزائے قید بھی ملی۔ پتہ نہیں کوئی منشیات فروشی کا معاملہ تھا یا کیا تھا۔ خیر، وہ دور ہی ایسا تھا۔ ضیاءالحق شہید نے ہیروئن کو گھروں کی دہلیز تک پہنچانے کا ایک کریش پروگرام کامیابی سے نافذ کیا تھا جو آنے والے عشروں تک نافذ العمل رہا۔ 
امجد شعیب صاحب معصوم آدمی ہیں۔ پہلے تعلیمی اداروں اور ٹی وی کے ”سٹیج شوز“ میں اسرائیل کے فضائل بعدازاں تحریک انصاف کے فضائل بیان کرتے رہے۔ ایک پروگرام میں سرکاری ملازموں سے دفتر مت جاﺅ کی اپیل کر ڈالی اور دھر لئے گئے۔ کوئی بات نہیں، ایک آدھ دن میں ضمانت ہو جائے گی اور میرا پیا گھر آیا والا سماں بن جائے گا۔ 
_______
اب تو ضمانت لینے کا کلچر بھی انقلاب پذیر ہو گیا ڈیڑھ دو ہزار کا جتھہ لے کر جاﺅ، دروزے گملے کیمرے سب توڑ ڈالو، اندر گھس جاﺅ، نعرے لگاﺅ، شور قیامت برپا کرو، ضمانت لو اور فاتحانہ واپس آ جاﺅ۔ کیا کہیئے، انقلاب چرخ گرداں یوں تو کبھی نہیں دیکھے تھے۔ 
_______

ای پیپر دی نیشن