اسلام آباد (اعظم گِل/خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ نے پنجاب، خیبر پختونخواہ انتخابات تاخیر ازخود نوٹس کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا۔ فیصلہ آج صبح 11 بجے سنایا جائے گا۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ عدالت کے علاوہ کسی کو انتخابی مدت بڑھانے کا اختیار نہیں، ٹھوس وجوہات کا جائزہ لیکر ہی عدالت حکم دے سکتی ہے، الیکشن بروقت نہ ہوئے تو استحکام نہیں آئے گا، حکومت کی نیک نیتی پر کوئی سوال نہیں اٹھا رہے، پہلی بار ایسی صورتحال ہے کہ کنٹینر کھڑے ہیں لیکن زرمبادلہ نہیں ہے۔ سپریم کورٹ انتخابات میں تاخیر پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت کا چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ نے آغاز کیا تو اٹارنی جنرل نے روسٹرم پر آکر کہا کہ میں دلائل دینے کے لیے تیار ہوں ۔ اور اعتراض اٹھایا کہ عدالتی حکم میں سے سپریم کورٹ بار کے صدر کا نام نکال دیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کو ادارے کے طور پر جانتے ہیں۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ جو عدالت میں لکھوایا جاتا ہے وہ عدالتی حکمنامہ نہیں ہوتا۔ جب ججز دستخط کردیں تو وہ حکمنامہ بنتا ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ بار کے صدر عابد زبیری نے دلائل شروع کیے تو جسٹس منیب اختر نے کہا کہ نوے دن کا وقت اسمبلی تحلیل کیساتھ شروع ہو جاتا ہے۔ جسٹس منیب اختر نے سوال اٹھایا کہ اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد وقت ضائع کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کیا نگران وزیراعلی الیکشن کی تاریخ دینے کی ایڈوائس گورنر کو دے سکتا ہے؟ کیا گورنر نگران حکومت کی ایڈوائس مسترد کر سکتا ہے۔ وکیل عابد زبیری نے کہا کہ الیکشن کی تاریخ دینے کا اختیار گورنر کا ہے وزیر اعلی کا نہیں۔ اٹارنی جنرل نے اعتراض اٹھایا کہ عابد زبیری درخواست گذار کے وکیل ہیں بار کی نمائندگی نہیں کرسکتے، جس پر عابد زبیری نے جواب دیا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ بار کا وکیل ہوں کسی سیاسی جماعت کا نہیں، دلائل جاری رکھتے ہوئے مزید کہا کہ سپریم کورٹ ماضی میں قرار دے چکی ہے انتخابات 90 روز میں ہی ہونے ہیں، عابد زبیری وکیل اسلام آباد ہائیکورٹ بار نے کہا کہ سیف اللہ کیس میں 12 ججز نے انتخاب کے عمل کو لازمی قرار دیا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ آرٹیکل 48 کہتا ہے کہ صدر کا ہر عمل اور اقدام حکومت کی سفارش پر ہوگا، آیا موجودہ حکومت یا سابقہ حکومت انتخابات کے اعلان کا کہے گی؟۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اس کے مطابق الیکشن کی تاریخ دینا ایڈوائس پر ہوگا۔ عابد زبیری نے کہا کہ آئین میں اسمبلی کی تحلیل کے چار طریقے بتائے گئے ہیں۔ جسٹس منیب نے کہا کہ نگران حکومت تو 7 روز بعد بنتی ہے، آئین کی مختلف شقوں کی آپس میں ہم آہنگی ہونا ضروری ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ پنجاب کے کیس میں وزارت قانون نے نوٹیفکیشن جاری کیا گورنر نے نہیں۔ عابد زبیری نے کہا آئین کے آرٹیکل 112 کے مطابق عدم اعتماد ایڈوائس پر یا پھر 48 گھنٹوں میں حکومت ختم ہوسکتی ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آئین کے مطابق آج بھی حکومت گورنر سے انتخاب کا کہہ سکتی ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اگر حکومت کی تاریخ کے حوالے سے ایڈوائس آجائے تو گورنر کیسے انکار کرسکتا ہے۔ عابد زبیری نے کہا کہ پنجاب میں 22 جنوری کو نگران حکومت آئی تھی، نگران حکومت کا اختیار روزمرہ کے امور چلانا ہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ صدر اور گورنر معاملہ میں کابینہ کی ایڈوائس کے پابند ہیں، کیا الیکشن کی تاریخ صدر اور گورنرز اپنے طور پر دے سکتے ہیں؟۔ چیف جسٹس نے کہا کہ نگران حکومت کی تعیناتی اور الیکشن کی تاریخ پر گورنر کسی کی ایڈوائس کا پابند نہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر بولے کہ جہاں صوابدیدی اختیار ہو وہاں کسی ایڈوائس کی ضرورت نہیں۔ چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ اسمبلی تحلیل کا نوٹیفکیشن کون کرے گا؟، عابد زبیری نے بتایا کہ پنجاب اسمبلی تحلیل کا نوٹیفکیشن سیکرٹری قانون نے جاری کیا۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ بنیادی سوال یہ بھی ہے کہ گورنر کہہ رہا ہے کہ اسمبلی میں نے تحلیل نہیں کی۔ عابد زبیری نے موقف اپنایا کہ تاریخ دینے کی بات کا ذکر صرف آئین کے آرٹیکل 105 (3) میں ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ حکومت کے انتخاب کی تاریخ دینے پر کوئی پابندی نہیں۔ عابد زبیری نے کہا کہ اتنے دنوں سے اعلان نہیں کیا گیا۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا آپ کہہ رہے ہیں حکومت آئینی ذمہ داری پوری نہیں کررہی؟ نوے روز میں الیکشن کرانا آئین کی روح ہے، اٹارنی جنرل سے کہیں گے آئینی نکات پر معاونت کریں۔ عابد زبیری نے دلائل دیے کہ وقت کے دبائو میں اگر اسمبلی ٹوٹ جائے تو صدر مملکت تاریخ دے گا، میرا موقف ہے کہ انتخاب کی تاریخ دینا صدر مملکت کا اختیار ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ مشاورت میں وسائل اور حالات کا جائزہ لیا جائے گا۔ اگر الیکشن کمیشن انتحابات کرانے سے معذوری ظاہر کرے کیا پھر بھی گورنر تاریخ دینے کا پابند ہے۔ عابد زبیری نے کہا کہ گورنر ہر صورت تاریخ دینے کا پابند ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ گورنر کے پاس تاریخ نہ دینے کا کوئی اختیار نہیں، گورنر الیکشن کمشن کے انتطامات مدنظر رکھ کر تاریخ دے گا۔ جسٹس منصور علی شاہ بولے کیا صدر کابینہ کی ایڈوائس کے بغیر کوئی فیصلہ کرسکتا ہے؟۔ جسٹس جمال خان نے کہا کہ صدر کے اختیارات آئین میں واضح ہیں۔ صدر ہر کام کے لیے ایڈوائس کا پابند ہے۔ عابد زبیری نے موقف اپنایا کہ صدر مملکت ہر کام کے لیے ایڈوائس کے پابند نہیں۔ صدر ہر وہ اختیار استعمال کرسکتے ہیں جو قانون میں دیا ہوا ہو۔ انتحابات کی تاریخ پر صدر اور گورنر صرف الیکشن کمیشن سے مشاورت کے پابند ہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ صدر بطور سربراہ مملکت ایڈوائس پر ہی فیصلے کرسکتے ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ گورنر جب بھی تاریخ دے گا 52 دنوں کا مارجن رکھا جائے گا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ صدر کے اختیارات برارہ راست آئین نے نہیں بتائے، آئین میں اختیارات نہیں تو پھر قانون کے تحت اقدام ہوگا، قانون بھی تو آئین کے تحت ہی ہوگا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اب تو آپ ہم سے پوچھنے لگ گئے ہیں کہ کرنا کیا ہے، صدر مملکت کس قانون کے تحت چٹھیاں لکھ رہے ہیں؟۔ عابد زبیری نے جواب دیا کہ صدر مملکت نے مشاورت کیلئے خط لکھے ہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آئین میں تو کہیں مشاورت کا ذکر نہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل بولے کہ اگر مان لیا قانون صدر مملکت کو اجازت دیتا ہے پھر صدر ایڈوائس کا پابند ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ نگران حکومت بھی تاریخ دینے کا کہہ سکتی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ دوسرے فریق کو سن کر فیصلہ کریں گے صدر کو مشاورت کی ضرورت ہے یا نہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ انتخابات 90 روز سے آگے کون لیکر جا سکتا ہے یہ الگ بات ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے سوال اٹھایا کہ کیا الیکشن کمشن گورنر کی تاریخ کو آگے بڑھا سکتا ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ گورنر اگر 85 ویں دن الیکشن کا کہے تو الیکشن کمیشن 89 دن کا کہہ سکتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ گورنر کو اسی وجہ سے الیکشن کمیشن سے مشاورت کا پابند کیا گیا ہے، صدر ہو یا گورنر سب ہی آئین اور قانون کے پابند ہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ صدر الیکشن کی تاریخ صرف قومی اسمبلی تحلیل ہونے پر دے سکتے ہیں، دوسری صورت میں ملک بھر میں انتخابات ہوں تو ہی صدر تاریخ دے سکتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ صدر کے صوابدیدی اور ایڈوائس پر استعمال کرنے والے اختیارات میں فرق ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ گورنر اسمبلی تحلیل کے اگلے دن انتخابات کا کہہ دے تو الیکشن کمیشن نہیں مانے گا۔ جسٹس منیب اختر بولے کہ گورنر نے الیکشن ایکٹ کو بھی مدنظر رکھنا ہے۔ اٹارنی جنرل نے عدالت میں موقف اپنایا کہا الیکشن 90 روز میں ہی ہونے چاہئے اور الیکشنز کو 90 روز سے آگے نہیں لیکر جانا چاہیے، گورنر پنجاب کا موقف ہے الیکشن کمیشن خود تاریخ دے، گورنر نے انٹرا کورٹ اپیل میں کہا ہے کہ ان سے مشاورت کی ضرورت نہیں اور الیکشن کمیشن کا موقف ہے کہ وہ ازخود تاریخ کیسے دے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سمجھ نہیں آتا ہائیکورٹ میں 14 دن کا وقت کیوں مانگا گیا؟۔ بطور اٹارنی جنرل آپ کیس شروع ہوتے ہی مکمل تیار تھے، ایسے کون سے نکات تھے جس کی تیاری کیلئے وکلا کو 14 دن درکار تھے، ہائیکورٹ میں تو مقدمہ روزانہ کی بنیاد پر چلنا چاہیے تھا۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ صدر نے الیکشن ایکٹ کی سیکشن 57 ون کا استعمال کیا ہے اگر صدر کا اختیار نہیں تو سیکشن 57 ون غیر موثر ہے،اگر سیکشن 57 ون غیر موثر ہے تو قانون سے نکال دیں،اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ میرے حساب سے الیکشن کمیشن انتخابات کی تاریخ دے سکتا ہے،جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ دو یا چار دن اوپر ہونے پر آرٹیکل 254 لگ سکتا ہے،جسٹس منصور علی شاہ استفسار کیا کہالیکشن کمیشن کی انتخابات کی تیاری کیا ہے جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کیا انتخابی مہم کا دورانیہ کم نہیں کیا جاسکتا،وکیل الیکشن کمیشن نے عدالت کوبتایا کہ بیلٹ پیپرز کی چھپائی کیلئے وقت درکار ہوتا،انتخابی مہم کا دورانیہ دو ہفتے تک کیا جاسکتا ہے، جسٹس منیب نے کہا کہ آئین پر عمل کرنا زیادہ ضروری ہے اٹارنی جنرل نے کہااگر انتخابات 90 دن میں ہی ہونا لازمی ہیں تو 1988 کا الیکشن مشکوک ہوگا؟دوہزار آٹھ کا الیکشن بھی مقررہ مدت کے بعد ہوا تھا، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ پہلا سوال تو یہ ہے کہ تاریخ دے گا کون؟الیکشن کمیشن کی تاریخ آنے پر ہی باقی بات ہوگی،جسٹس منیب اختر نے کہاآپ بطور اٹارنی جنرل قانون کا دفاع کرنے کی بجائے اس کے خلاف بول رہے ہیںجسٹس محمد علی مظہر بولے کہ سیکشن 57 ون ختم کردیں تو الیکشن ہو ہی نہیں سکے گا، اٹارنی جنرل نے کہا کہ موجودہ صورتحال میں الیکشن کمیشن انتخاب تاریخ کا اعلان کرے الیکشن کمیشن کہہ سکتا ہے 14 اپریل تک الیکشن ممکن نہیں،ٹھوس وجوہات کے ساتھ الیکشن کمیشن فیصلہ کرنے کا مجاز ہے کسی نے ابھی تک تاریخ ہی نہیں دی سب کچھ ہوا میں ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے پاس 90 روز سے تاخیر کا اختیار کہاں سے آیا؟ جھگڑا ہی سارا 90 روز کے اندر الیکشنز کرانے کا ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ٹھوس وجوہات پر آرٹیکل 254 کا سہارا لیا جاسکتا ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے سوال اٹھایا کہ تاریخ کا اعلان کئے بغیر آرٹیکل 254 کا سہارا کیسے لئے جاسکتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا قانون واضح نہیں تو کیسے کہیں الیکشن کمشن غلطی کررہا ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ نوے دن سے تاخیر پر عدالت اجازت دے سکتی ہے۔ چیف جسٹس نے واضح کیا کہ یہ نہ سمجھیں عدالت کسی غیر آئینی کام کی توسیع کرے گی، آرٹیکل 254 کا جہاں اطلاق بنتا ہوا وہاں ہی کریں گے۔سپریم کورٹ میں ایک موقع پر سیاسی جماعتوں کو الیکشن کی تاریخ پر مشاورت کیلئے بھی کہا گیا۔ چیف جسٹس نے شیری رحمن اور فواد چودھری کو روسٹرم پر بھی بلایا اور استفسار کیا کہ کیا ان کی جماعتیں مشاورت پر تیار ہیں۔
اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) صدر مملکت کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے سپریم کورٹ کو آگاہ کیا کہ صدر مملکت نے فیصلہ کیا ہے کے پی میں انتخابات کی تاریخ کا نوٹیفکیشن واپس لے لیں۔ انہوں نے بتایا کہ صدر مملکت کا کہنا ہے کہ کے پی میں گورنر نے اسمبلی تحلیل کی تو صوبے میں انتخابات کی تاریخ دینا بھی گورنر ہی کا اختیار ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ اب تک صدر مملکت نے کے پی کی حد تک ایڈوائس واپس کیوں نہیں لی؟ اس پر وکیل نے جواب دیا کہ صدر مملکت جلد ایڈوائس واپس لیں گے۔ صدر کے وکیل نے اعتراف کیا کہ صدر کے پاس کے پی میں انتخابات کی تاریخ دینے کا اختیار نہیں تھا۔ انہوں نے کے پی میں تاریخ دے کر آئینی اختیار سے تجاوز کیا۔ اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا صدر نے تاریخ کا اعلان کر کے ہائیکورٹ کے فیصلے کی توہین نہیں کی؟۔ وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ صدر مملکت ہائیکورٹ میں فریق نہیں تھے۔
از خود نوٹس کیس کا فیصلہ آج
Mar 01, 2023