قیامِ پاکستان سے لے کر آج تک ملکی سطح پر مضطرب فیصلوں سے ریاست اور ملکی معیشت کو شدید نقصان پہنچنے کے علاوہ عالمی سطح پر ملک کا وقار مجروح ہوا اور رشوت خوری میں اضافہ ہوا۔ جانبدارانہ اور غیر معروف فیصلوں کو کبھی بھی عوامی پذیرائی نہیں ملی بلکہ ان فیصلوں سے جگ ہنسائی ہوئی اور قومی تشخص شدید مجروح ہوا ۔
اور اب درد ہے، دیار ہے اور جگ ہنسائی ہے
ہائیکورٹ کے 70 جج جن کی مدتِ ملازمت پانچ سال سے کم تھی ان کو مراعات دینے کے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے فیصلے سے قومی خزانے کو 1.647 بلین روپے کا نقصان ہوا جبکہ 2013 ءکے فیصلے میں جسٹس اقبال حمید الرحمن اپنے نوٹ میں لکھتے ہیں، ’ اس لیے میں اکاﺅنٹنٹ جنرل سندھ (سپرا) کے فیصلے کو فی انکوریم سمجھتا ہوں جس کا ممکنہ اثر ہونا چاہیے اور ججوں کو دی جانے والی پنشنری مراعات کو اس عدالت کے فیصلے اور حکم کے بعد بند کر دیا جانا چاہیے، لیکن پنشنری مراعات کی وصولی کے لیے کوئی ہدایت نہیں دی جاسکتی اور ان سے پہلے ہی حاصل کی گئیں مراعات ، کیونکہ یہ بلا شبہ ان کی طرف سے کسی غلط ، دھوکہ دہی یا غلطی کی وجہ سے حاصل نہیں کی گئیں بلکہ ان سے فائدہ اٹھایا گیا ہے۔ ’اس عدالت کے غلط فیصلے ‘ کی وجہ سے اس طرح ، فوری فیصلے اور حکم کو سابقہ اثر نہیں دیا جا سکتا‘۔
حال ہی میں سپریم کورٹ کے ایک جج کے خلاف ریفرنس دائر ہوا جن کے 3 ارب سے زائد مالیت کے اثاثوں کی تحقیقات کرنے کی استدعا کی گئی۔ عدلیہ میں ایسے رویے مسندِ انصاف پر براجمان شفاف حیثیت کے حامل منصفوں اور خود عدلیہ کو متنازع بنانے کے مذموم عوامل ہیں جن کی بیخ کنی فی الفور ہونا انصاف کا تقاضا ہے۔ایسے معاملات انصاف سے اعتماد کو بکھیر دیتے ہیں لہٰذا اب ملک کی رائے عامہ ایسے فیصلوں کو تنقید کا نشانہ بنانے کے علاوہ بے اعتمادی کا اظہار بھی کرنے لگی ہے۔ قانون ساز ادارے کے قائد ایوان اور وزیر اعظم شہباز شریف کی زیرِ صدارت اجلاس کا دو ججوں جسٹس اعجاز الحسن اور مظاہر نقوی کو مسلم لیگ (ن) کے کیسز سے الگ کرنے کا مطالبہ جانبدارانہ رویے کے خلا ف راست اقدام ہے جس سے فیصلوں سے بیزاری ظاہر ہوتی ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق ایسے معاملات بشمول سپریم کورٹ کے جج کی مبینہ آڈیو لیکس کا معاملہ انتہائی سنجیدہ ہے لہٰذا ایسے معاملات کو منطقی انجام تک پہنچانا چاہیے۔ سیاسی شخصیات کا ضمانت قبل از گرفتاری کی آڑ میں چھپنے کی روایت نے عدلیہ کی غیر جانبداری پر شکوک وشبہات پیدا کیے۔ پچھلے دس گیارہ ماہ میں عدالتوں سے غیر ضروری ضمانت قبل از گرفتاری کے احکامات انتہائی معنی خیز اور تشویش کا باعث بنے جن سے عالمی سطح پر اور ملک کے اندر یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ ضمانت قبل از گرفتاری حصولِ انصاف میں رکاوٹ کا سبب ہے جسے خود سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ضمانت قبل از گرفتاری کی قانون میں کوئی گنجائش نہیں ۔ فیصلے میں کہا گیا کہ ملزمان کی عدم گرفتاری سے شواہد ضائع بھی ہو سکتے ہیں۔ اس فیصلے کے بعد ماتحت عدالتوں کا ضمانت قبل از گرفتاری دینا معنی خیز ہے ۔
زندگی میں کسی کمی یا خواہش نفسی کی تکمیل انسان کو تقاضا کرنے پر اکساتی ہے جسے حرفِ عام میں ’ مطالبہ‘ کے لفظ سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ مطالبہ ہر انسان کا حق ہے کہ وہ اپنے حق کے لیے آواز بلند کرے۔ طالب کو اپنا حق مانگنے کی درخواست وصولیت سب سے پہلے اسلام نے دی جو عہدِ حاضر میں جمہوری نظام میں عوام کو حاصل تو ہے لیکن خود ساختہ عوامی قیادت آمرانہ ذہنیت کے حامل اور آمر حکمرانوں کے سامنے یہ حق طلبی وبالِ جان بھی بن جاتی ہے۔
تم کو حق بات جو کہنے کی بہت عادت ہے
تختہ¿ دار پہ جانے کا ارادہ ہے کیا
ؓ عہدِ رفتہ اور دورِ حاضر میں مطالبات کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو ملک میں کسی مطالبے کو پذیرائی ملی ہو یا مطالبہ تسلیم کر لیا ہو ایسی کوئی مثال نہیں ملتی۔ سر دست مسلم لیگ (ن) کے رہنما کیپٹن ریٹائرڈ صفدر نے اچھوتا اور خیالی مطالبہ کیا ہے کہ ’نواز شریف اس دن آئیں گے جس دن ثاقب نثار کسی عدالتی کٹہرے میں کھڑا ہوگا ‘۔ وقت ایک سا نہیں رہتا، ملک کے پہلے وزیر اعظم خان لیاقت علی خان کو سازش کے تحت گولی مار کر شہید کیا گیا تو ان کے قاتل کو موقع پر ہی گولی ماردی گئی تاکہ سازش عیاں نہ ہو۔ بھولے عوام بہت خوش ہوئے کہ قاتل کو مار دیا گیا لیکن اب وہ دور گزر گیا، عوام کا شعور بیدار ہو چکا ہے ، لہٰذا زبانِ خلق کو نقارہ¿ خدا سمجھو۔ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے بھی مطالبے کی صورت میں جانبدارانہ فیصلوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’ملک کی اعلیٰ عدلیہ دہرے معیار کے ساتھ چل رہی ہے ،نیب قانون ججوں پر بھی لاگو ہونا چاہیے‘۔
میرے نزدیک مطالبہ علم و دانش کے حامل صاحبِ اقتدار یا مقام ِمنصب پر فائز عالی مقام حاملین سے ہی کیا جانا چاہیے۔ عقل خرد سے عاری ، جانبدار ، شقیق القلب اور اپنی ذات میں محبوس انسان سے مطالبہ کرنا بھینس کے آگے بین بجانے کے مترادف ہے ، لہٰذاجہاں عدل نہیں ہوتا وہاں جدل ہوتا ہے۔ حق تلفی ، ناانصافی اورمعاشرتی بگاڑ ملکی تباہی کا سبب ہیں۔
لوبھیوں کی بستی میں، مایا کے ترازو سے
فیصلہ کرے گا کون، کیا ہے پاپ کیا ہے پُن