بلوچستان کا علاقہ بارکھان جہاں ایک ’سانحے‘ نے کوئٹہ میں امن و امان کا مسئلہ پیدا کر دیا۔ ایک کنویں سے ملنے والی تین نعشوں نے پورے ملک میں کہرام مچا دیا۔ مری قبیلے کے ایک شخص خان محمد مری نے الزام لگایا کہ اس کی بیوی اور دوبچوں کا قاتل صوبائی وزیر عبدالرحمن کھیتران ہے۔ اور کنویں سے ملنے والی نعشیں اس کی بیوی اور بیٹوں کی ہیں۔ واضح رہے کہ 20فروری کو بلوچستان کے علاقے بارکھان کے ایک بوسیدہ اور سالوں پرانے قدیم کنویں سے د و نوجوانوں سمیت ایک خاتون کی نعشیں برآمد ہوئی تھیں جن کے بارے گمان کیا جا رہا تھا کہ یہ بی بی گراں ناز اور اس کے بیٹوں کی نعشیں ہیں۔ اس سے قبل گراں ناز کا شوہر خان محمد مری الزام عائد کر چکا تھا کہ اس کی اہلیہ اور سات بچے صوبائی وزیر مواصلات سردار عبدالرحمن کھیتران کی نجی جیل میں قید ہیں۔ اس الزام کے بعد پورے بلوچستان میں شور مچ گیا۔ میڈیا پر خبریں آنے کے بعد ملک بھر میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ اسی دوران کنویں سے جب تینوں نعشیں ملیں تو کسی تصدیق کے بغیر کہہ دیا گیا کہ یہ گراں ناز اور اس کے دو بیٹوں کی نعشیں ہیں چونکہ نعشوں کو بری طرح مسخ کیا گیا تھا اس لیے ان کی شناخت نہیں ہو رہی تھی تاہم ان خبروں کے بعد مری قبیلے میں شدید ردعمل پایا گیا۔ وہ بڑی تعداد میں کوئٹہ کی سڑکوں پر نکل آئے جس سے نظامِ زندگی مفلوج ہو کر رہ گیا۔
تہرے قتل کے اس الزام پر وزیر مواصلات سردار عبدالرحمن کھیتران کے خلاف ایف آئی آر درج ہو گئی اور انھیں گرفتار کر کے مقامی جوڈیشل مجسٹریٹ سے دس روز کا جسمانی ریمانڈ حاصل کر لیا گیا۔ تینوں نعشیں پوسٹ مارٹم کے لیے مقامی سول ہسپتال پہنچا دی گئیں جہاں ڈاکٹروں نے پوسٹ مارٹم کے بعد تصدیق کی کہ مرنے والی لڑکی ہے جس کی عمر سترہ یا اٹھارہ سال ہے۔ اس سے یہ بات سامنے آئی کہ ملنے والی نعش خان محمد مری کی اہلیہ کی نہیں۔ یوں بارکھان واقعے کی یہ کہانی ایک نئے ڈرامائی موڑ میں داخل ہو گئی۔ ابھی تک وزیر مواصلات سردار عبدالرحمن کھیتران پولیس کی زیر حراست جسمانی ریمانڈ پر ہیں۔ ان کی رہائی ممکن نہیں ہوئی جبکہ گراں ناز اور بچوں نے مقامی مجسٹریٹ کے روبرو پیش ہو کر ضابطہ فوجداری کی دفعہ 164کے تحت اپنا بیان بھی قلمبند کرا دیا ہے جس میں اپنے زندہ ہونے کی تصدیق کی ہے۔
اس سانحے نے جہاں وزیر مواصلات کے لیے مسائل پیدا کیے کہ وہ زیر حراست آئے، وہیں کوئٹہ کا امن و امان بھی کئی روز تک متاثر رہا۔ مری قبیلے نے کوئی گاڑی سڑک پر نہ چلنے دی۔ کوئٹہ کے تمام بازار اور مارکیٹیں اس دوران بند رہیں تاہم گراں ناز کے زندہ سلامت منظرِ عام پر آنے کے بعد خان محمد مری کا یہ ماننا ہے کہ مقتولہ کے ساتھ ملنے والی دونوں نعشیں اس کے بیٹوں کی ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا نے اس واقعے کو خوب بڑھا چڑھا کر پیش کیا جبکہ پرنٹ میڈیا نے بھی ہیڈ لائنز لگائیں۔ یہ تصدیق ہونا ابھی باقی ہے کہ جس کی نعش ملی وہ مقتولہ آخر ہے کون؟ اس کے بارے میں کسی قسم کے شواہد اب تک سامنے نہیں آئے، نہ ہی کسی تھانہ میں کسی لڑکی کے اغواءیا گمشدگی کی کوئی رپورٹ منظرِ عام پر آئی ہے۔ اس سے معاملہ اور بھی پراسرار اور سنگین ہو گیا ہے تاہم گراں ناز اور اس کے پانچ بچوں کی بازیابی میں لیویز نے اہم کردار ادا کیا۔ خان محمد کے اس الزام کی بھی ضرور تفتیش و تحقیق ہونی چاہیے کہ اس کی اہلیہ اور سات بچے 2019ءسے سردار محمد عبدالرحمن کھیتران کی نجی جیل میں کیوں قید تھے اور کھیتران نے انھیں کیوںبند کر رکھا تھا۔
خان محمد مری کا یہ کہنا کہ کنویں سے ملنے والی دونوں نوجوانوں کی نعشیں اس کے بیٹوں کی ہیں، کیس کو مزید الجھا رہی ہیں۔ خان محمد مری کے حالیہ بیانات میں بھی خاصا تضاد پایا جاتا ہے۔ اس معاملے کی تحقیق کی ضرورت ہے، اس کے بعد ہی سارا معاملہ حل ہو گا۔ ایک سینئر پولیس افسر کا کہنا ہے کہ وہ صوبائی وزیر سے واقعے کی جامع انداز سے تفتیش کر رہے ہیں۔کسی رورعایت کے بغیر تحقیق کا عمل جاری ہے۔ واقعہ کی تحقیقات کے لیے حکومت بلوچستان کی جانب سے اعلیٰ سطح کی ایک تحقیقاتی ٹیم مقرر کر دی گئی ہے جس کے سربراہ بلوچستان کانسٹیبلری کے کمانڈنٹ سلمان چودھری کو مقرر کیا گیا ہے۔ تحقیقاتی ٹیم میں ڈی آئی جی کوئٹہ، ڈی آئی جی سپیشل برانچ اور ایس ایس پی انویسٹی گیشن کوئٹہ شامل ہیں۔ توقع ہے کہ اگلے چند روز تک یہ تفتیش کوئی نیا ڈرامائی رخ اختیار کر لے گی۔
واضح رہے کہ بی بی گراں ناز اور اس کے مغوی بچوں کی بازیابی کے لیے 120جوانوں اور افسروں پر مشتمل چار ٹیموں نے حصہ لیا۔ تمام تر کارروائی سیکرٹری داخلہ اور ڈی آئی جی لیویز نے حکومت بلوچستان کی ہدایت پر کی۔ مغویہ بی بی گراں ناز مغوی بچوں کی بازیابی کے لیے مارے گئے چھاپے سے پہلے ہی تمام اغوا کار اپنی کمین گاہ سے فرار ہو چکے تھے جن کوگراں ناز کی نشاندہی پر تلاش کرنے کی بھرپور کوشش کی جار ہی ہے اور پولیس کی جانب سے گرفتاری کے لیے چھاپوں کا سلسلہ تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔ بلوچستان کے وزیر مواصلات سردار عبدالرحمن کھیتران کی بات کریں تو ان کا تعلق حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی سے ہے۔ انھوں نے ایک بیان میں اپنے اوپر لگائے گئے تمام الزامات کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا کہ ان کی شہرت کو خراب کرنے کے لیے ایسا کیا جا رہا ہے۔ وہ کسی کے اغواءاور قتل میں ملوث نہیں۔