لاہور(نیوز رپورٹر) طبی شعبے سے وابستہ افراد خصوصاً ڈاکٹروں میں قائدانہ صلاحیتیں اجاگر کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ وہ اپنے اداروں اور ڈیپارٹمنٹس کو بہتر طور پر چلا کر مریضوں کیلئے آسانیاں پیدا کرسکیں۔ ان خیالات کا اظہار نگران وزیر صحت پنجاب پروفیسر ڈاکٹر جاوید اکرم نے منگل کے روز یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز میں ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ "لیڈر شپ ان ہیلتھ کیئر" کے موضوع پر سیمینار کا انعقاد پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن کی جانب سے کیا گیا۔ سیمینار میں نگران وزیر تعلیم منصور قادر نے بھی خصوصی طور پر شرکت کی۔ وزیر صحت پنجاب ڈاکٹر جاوید اکرم کا کہنا تھا کہ باقی چیزوں کی طرح ہر لیڈر کی بھی ایک ایکسپائری ڈیٹ ہوتی ہے جس پر اسے جگہ چھوڑ دینی چاہیے۔پروفیسر جاوید اکرم نے کہا کہ لیڈر وہ نہیں جو شکایتوں اور آڈٹ پیروں سے ڈرے۔ مجھے بھی نیب کے کیسز کا سامنا کرنا پڑا لیکن میں نے پروا نہیں کی۔انھوں نے کہا کہ اچھی روایات سے اچھے ادارے بنتے ہیں۔ طبی تعلیمی اداروں میں سینٹرز آف ایکسیلنس بننے چاہیں۔ ڈاکٹر جاوید اکرم کا مزید کہنا تھا کہ میڈیسن کا شعبہ بہت تیزی سے ترقی کررہا ہے اور میڈیسن اگلے 20سال میں اتنی بدل جائے گی جتنی کہ گزشتہ 200سال میں نہیں بدلی۔ انھوں نے کہا کہ میڈیکل کے شعبے میں لیڈر پیدا نہیں ہوتے بلکہ تیار کیے جاتے ہیں۔ ملک میں تکنیکی ترقی سے زیادہ انسانی ترقی پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ نگران وزیر تعلیم منصور قادر نے کہا کہ پاکستان میں صنفی امتیاز ایک تکلیف دہ حقیقت ہے۔
جس کے خلاف باقی دنیا کے سال مل کر اقدامات اٹھانے ہوں گے۔وائس چانسلر پروفیسر احسن وحید راٹھور نے کہا کہ ہیلتھ کیئر میں لیڈر شپ کی اہمیت کے پیش نظر یونیورسٹی نے اس سال ایم بی بی ایس کے نصاب میں ایک پورا ماڈیول متعارف کرایا ہے۔ "پرل"کے نام سے اس ماڈیول میں طلبہ کیلئے پروفیشنلزم، لیڈر شپ، اخلاقیات اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کو شامل کیا گیا ہے۔ چیئرپرسن پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن جسٹس ریٹائرڈ محمد بلال خان نے کہا کہ کمیشن کو ملنے والی زیادہ تر شکایات کا تعلق معالجین کی بے حسی سے ہوتا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ علاج معالجے کی تمام خدمات کا مرکز صرف اور صرف مریض ہونا چاہیے۔سیکرٹری سپشلائزڈ و ہیلتھ کیئر ڈاکٹر احمد جاوید قاضی نے کہا کہ ہسپتالوں میں ایم ایس، ڈائریکٹرز، کالجوں کے پرنسپلز اور یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز اپنی اپنی جگہ لیڈر ہیں جن میں جلد سیکھنے، محنت، ذاتی کمزوریوں پر قابو پانے اور دوسروں کو متاثر کرنے کی صلاحیتیں ہونی چاہیں۔ سی ای او پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن ڈاکٹر ثاقب عزیز نے کہا کہ ہسپتالوں کی انسپکشن کے دوران معیارات کے نفاذ کے عمل میں خلا دیکھے ہیں جس کی وجہ لیڈر شپ کا فقدان ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ پبلک سیکٹر میں لیڈر شپ کو درپیش چیلنجز بہت نمایاں ہیں۔ ڈاکٹر ثاقب عزیز نے کہا کہ کورونا کے دوران این سی او سی اجتماعی لیڈر شپ کی اچھی مثال ہے۔پروفیسر مجید چودھری نے کہا کہ طب کے شعبے میں آمرانہ رویوں کا خاتمہ ہونا چاہیے اور اتالیق (Mentoship) کے نظام کو مضبوط کیا جانا چاہیے۔ پروفیسر عیص محمد نے کہا کہ مریضوں اور انکے معالجین کے درمیان رابطے کا فقدان نہیں ہونا چاہیے۔ ڈاکٹر صومیہ اقتدار نے ہیلتھ کیئر میں صنفی عدم مساوات کے خاتمے پر زور دیا اور کہا کہ خواتین صحت کے شعبے میں بہتری لیڈر ثابت ہورہی ہیں۔ سیمینار میں ڈائریکٹر کلینکل گورننس پی ایچ سی ڈاکٹر مشتاق سلیریا نے بطور کوآرڈینیٹر فرائض انجام دیے۔ سیمینار میں پروفیسر محمود ایاز، ڈاکٹر فیصل سلطان، پروفیسر ذرفشاں طاہر، پروفیسر فرید الظفر، پروفیسر فاروق افضل، پروفیسر اشرف نظامی، پروفیسر غلام مصطفی ارائیں، پروفیسر عاقب سہیل، پروفیسر غلام مرتضیٰ چیمہ، پروفیسر عائشہ شوکت، پروفیسر ہارون حامد، ڈاکٹر علی رزاق، ڈاکٹر عائشہ نعمان کے علاوہ شعبہ صحت سے تعلق رکھنے والے افراد کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ مزید برآں پنجاب بھر سے پروفیسرز، ایم ایس حضرات وڈیو لنک کے ذریعے بھی شریک ہوئے۔
ڈاکٹروں میں قائدانہ صلاحیتیں اجاگر کرنے کی ضرورت ہے:جاوید اکرم
Mar 01, 2023