پاکستان میں سیاسی محاذ آرائی نے اس حد تک شدت اختیار کرلی ہے کہ ریاستی ادارے بھی اس کی لپیٹ میں آ چکے ہیں۔ پاکستان کا سیاسی نظام جو کہ سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ ہے لہٰذا یہ عوامی خدمت کی بجائے گروہی مفادات کا تحفظ اور دفاع کرتا ہے۔ ذاتی گروہی سیاسی مفادات قومی اور عوامی مفادات پر حاوی ہو چکے ہیں۔ گزشتہ چار دہائیوں میں میرٹ اور اہلیت کے بجائے ”اپنا آدمی کلچر“ کو فروغ دیا گیا جس کے نتیجے میں ریاستی ادارے بھی غیرجانبدار اور غیرسیاسی رہنے کے بجائے سیاسی بن گئے ہیں۔ آڈیوز ویڈیوز سے یہ حقیقت آشکار ہو چکی ہے کہ پاکستان کے ہر ادارے میں سیاسی جماعتوں کے حامی موجود ہیں جو آئین اور قانون کی حکمرانی کے بجائے پسند ناپسند کی بنیاد پر فیصلے کرتے ہیں۔ کشیدگی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ حکومت اور اپوزیشن عوام کے جان ومال کے تحفظ کے لیے بھی ایک میز پر بیٹھنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ عمران خان نے پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیاں توڑ کر پاکستان میں ہیجانی کیفیت پیدا کر دی ہے۔ وہ اگر صوبائی اسمبلیوں کو مدت پوری کرنے دیتے تو پاکستان میں آئینی اور سیاسی بحران پیدا نہ ہوتا۔ یہ درست ہے کہ عمران خان نے اسمبلیاں توڑنے کا آئینی اختیار استعمال کیا ہے مگر اتنا بڑا فیصلہ کرنے سے پہلے پاکستان کے قومی مفادات اور سیاسی و معاشی عدم استحکام کو نظر میں رکھنا چاہیے تھا۔ پاکستان ایک غریب اور مقروض ملک ہے۔ کروڑوں عوام کے لیے اب ایک وقت کا کھانا بھی مشکل ہوتا جارہا ہے ان حالات میں پاکستان 9 ماہ میں دو انتخابات کا متحمل کیسے ہوسکتا ہے؟ ایسے انتخابات جن کے بارے میں کوئی بھی یقین کے ساتھ نہیں کہ سکتا کہ ان کے بعد سیاسی اور معاشی استحکام پیدا ہو جائے گا۔
پاکستان کے انتخابی نظام کی فطرت میں مفاد پرستی موقع پرستی اور منافقت شامل ہے۔ پاکستان کی سیاسی مذہبی جماعتیں اگر متناسب نمائندگی کے اصول پر انتخابات کرانے پر اتفاق رائے کرلیں تو مفاد پرست الیکٹیبلز سے قوم کی جان چھوٹ سکتی ہے اور بہتر لوگ عوام کی نمائندگی کر سکتے ہیں۔ جمہوریت مثالی اور معیاری بن سکتی ہے۔
موجودہ سیاسی نظام کی ستم ظریفی ملاحظہ فرمائیے کہ سیاسی جماعتیں عام انتخابات کی تاریخ پر آمادہ نہیں ہو رہیں جس کے نتیجے میں صدر پاکستان اور الیکشن کمیشن پاکستان ایک دوسرے پر تلخ الفاظ کی گولہ باری کر رہے ہیں۔ صدر پاکستان نے صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے لیے 9 اپریل کی تاریخ مقرر کی ہے۔ الیکشن کمیشن اس تاریخ کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔ دہشت گردی اور مالیاتی دشواریوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے انتخابی بحران حل کرنے کے لیے سوو موٹو نوٹس لیا اور اپنا آئینی اختیار استعمال کرتے ہوئے نو رکنی بنچ تشکیل دیا جس پر حکمران اتحاد نے شدید تحفظات کا اظہار کر دیا۔ اعتراضات کا نتیجہ یہ نکلا چار ججوں نے بینچ کا حصہ بننے سے معذرت کرلی ہے اور اب پانچ رکنی بینچ انتخابات کے انعقاد کے بارے میں سماعت کر رہا ہے۔ نو رکنی بنچ جس انوکھے انداز سے ٹوٹا ہے اس کی نظیر عدالتی تاریخ میں نہیں ملتی۔
حکمران اور اپوزیشن جماعتیں دونوں سپریم کورٹ پر دباو¿ ڈالنے کی کوشش کر رہی ہیں اور چاہتی ہیں کہ عدلیہ ان کے موقف کو تسلیم کرلے۔ عمران خان ایک مقدمے کے سلسلے میں ہزاروں کارکنوں کے ساتھ لاہور ہائی کورٹ پہنچے جس کا مقصد عدلیہ پر عوامی دباو¿ ڈالنا تھا۔ دوسری جانب پاکستان مسلم لیگ نون کی مرکزی نائب صدر مریم نواز نے ساہیوال میں پارٹی ورکرز کے کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے عدلیہ کو دباو¿ میں لانے کی کوشش کی ہے اور دو ٹوک الفاظ میں یہ اعلان کردیا ہے کہ جب تک عمران خان کو کٹہرے میں نہیں لایا جائے گا اور میاں نواز شریف کے ساتھ انصاف نہیں کیا جائے گا، اس وقت تک پاکستان میں انتخابات نہیں کرائے جائیں گے۔ لوکل باڈیز کے انتخابات کے سلسلے میں عدلیہ کے بیسیوں احکامات عدالتی ریکارڈ میں موجود ہیں جن پر حکومتوں نے عمل نہیں کیا تھا۔ مریم نواز کے ساہیوال کے خطاب سے یہ تاثر ملتا ہے کہ اگر سپریم کورٹ نے نوے روز میں انتخابات کرانے کا فیصلہ دے دیا تو وفاقی حکومت اس پر عمل درآمد نہیں کرے گی۔ تاخیر کے لیے مختلف حیلے بہانے تراشے جائیں گے۔ پاک فوج عسکری تاریخ میں پہلی بار شدید دباو¿ کا شکار ہے۔
پہلے مسلم لیگ نون کے مرکزی لیڈر میاں نواز شریف نے پاک فوج کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور ان کے بعد عمران خان نے پاک فوج پر تنقید کے تمام سابقہ ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ اس افسوسناک اور تشویشناک صورت حال کی مرکزی ذمے داری پاک فوج کے سابق سپہ سالار جنرل قمر جاوید پر عائد ہوتی ہے۔ انہوں نے پاکستان کی سلامتی دفاع اور اندرونی استحکام کے تقاضوں کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے پاکستان کی سیاست میں ننگی مداخلت کی اور اس شرمناک مداخلت کو تسلیم بھی کیا جس کی ویڈیوز سوشل میڈیا کے ریکارڈ میں موجود ہیں۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ آج پاکستان میں ایک بھی دیدہ ور لیڈر موجود نہیں جو قوم کو اپنی نوعیت کے انتہائی حساس اور سنگین بحران سے باہر نکالنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ سپریم کورٹ کے دو معزز ججوں نے آبزرویشن دی ہے کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیوں کو بحال کر دیا جائے تو موجودہ تکلیف دہ اور اذیت ناک بحران ٹل سکتا ہے محترم جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے اختلافی نوٹ میں تحریر کیا ہے کہ اسمبلیوں کی تحلیل عوام کے بنیادی حقوق کا مسئلہ ہے جس کا جائزہ لیا جانا چاہیے کہ اسمبلیاں آئینی سکیم کے مطابق آزادانہ رائے سے توڑی گئیں یا کسی کی ڈکٹیشن سے ٹوٹیں۔ محترم جسٹس اطہر من اللہ کا اختلافی نوٹ قابل توجہ ہے ہر فیصلے کی نیت کو پرکھنا لازم ہوتا ہے۔ دونوں صوبائی اسمبلیاں اگر اپنی آئینی مدت پوری کریں اور اس سال اکتوبر میں قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کرا دیئے جائیں تو پاکستان کی سیاست اور جمہوریت کا مستقبل محفوظ بنایا جا سکتا ہے ۔
ریاستی اداروں کو جس طرح تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے وہ ہر گز پاکستان کی آزادی اور سلامتی کے مفاد میں نہیں ہے۔ پاکستان کی پارلیمان ایگزیکٹو عدلیہ پاک فوج اپوزیشن ریاست کے اہم ادارے نہ صرف تنقید کی زد میں ہیں بلکہ ایک دوسرے کے خلاف صف آراءہو چکے ہیں۔ عدلیہ کے ججوں کے درمیان اختلاف رائے عدل و انصاف کے نظام کے لیے کوئی نیک شگون نہیں ہے۔ ان حالات میں پاکستان کے مستقبل کے بارے میں کیا پیشین گوئی کی جا سکتی ہے۔ ہم خود ہی اپنے پاو¿ں پر کلہاڑیاں مارتے چلے جارہے ہیں اور اجتماعی خود کشی کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ کرسی کی جنگ نے ریاست کو برباد کر کے رکھ دیا ہے۔ بنیادی ریاستی اداروں کو کمزور کرنے کی بجائے ان کی تشکیل نو کی ضرورت ہے۔
٭....٭....٭
ریاستی اداروں کی تشویشناک محاذ آرائی
Mar 01, 2023