پاکستان ایک ایسے خطے میں واقع ہے جہاں نہ چاہتے ہوئے بجٹ کا قابلِ ذکر حصہ دفاعی معاملات پر خرچ کرنا اس کی مجبوری ہے۔ ایک طرف افغانستان ہے تو دوسری جانب بھارت، ان دونوں ہمسایوں کی وجہ سے پاکستان کو جن مسائل کا سامنا ہے یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بھارت افغانستان میں موجود کئی عناصر کو استعمال کر کے پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اس مذموم مقصد کے حصول کے لیے وہ پاکستان کے مختلف حصوں میں تخریب کاری بھی کراتا ہے۔ علاوہ ازیں، بلوچستان میں علیحدگی پسندی کی آگ کو مسلسل بھڑکانے اور عسکریت پسند عناصر کو ہر قسم کی امداد فراہم میں بھی بھارت سب سے آگے ہے۔ حسین مبارک پٹیل کے نام سے بھارت کے خفیہ ادارے ریسرچ اینڈ انیلسس ونگ (را) کا افسر کلبھوشن سدھیر یادیو بھی ایسی ہی کارروائیوں میں ملوث تھا جسے پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے حراست میں لیا۔
بھارت صرف افغان سرزمین کو استعمال کر کے یا بلوچستان میں شدت پسندی کو ہوا دے کر ہی پاکستان کے لیے مسائل پیدا نہیں کرتا بلکہ وہ لائن آف کنٹرول سے بھی بلا اشتعال کارروائیاں جاری رکھتا ہے جن کا مقصد پاکستان کو مسلسل دباو¿ میں رکھنا ہے۔ ایک ایسی ہی کارروائی کرتے ہوئے چار سال پہلے 27 فروری 2019ءکو بھارتی فضائیہ نے آزاد کشمیر کے راستے پاکستان کی حدود میں داخل ہو کر بالا کوٹ میں ایک ایڈونچر کرنے کی کوشش کی جسے پاک فضائیہ کی بھرپور جوابی کارروائی نے ایک ایسا مس ایڈونچر بنا کر رکھ دیا جسے بھارتی فضائیہ اور ونگ کمانڈر ابھینندن ورتھمان کبھی نہیں بھول پائیں گے۔ آپریشن سوئفٹ ریٹارٹ (Swift Retort) اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان کسی بھی جارحیت کا مقابلہ کر سکتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کسی بھی حملے کا جواب دینے کی ہمہ وقت تیار ہے۔ پاکستان کی اس بھر پور جوابی کارروائی نے نہ صرف جنگی ماحول کا خاتمہ کیا بلکہ بھارت کے ناپاک عزائم کو بھی خاک میں ملا دیا۔
اب سے چار برس پہلے ’یومِ للکار‘ کے روز بھارت کو سوائے رسوائی اور ہزیمت کے اور کچھ ہاتھ نہیں آیا۔ بھارت کا یہ گھمنڈ کہ وہ خطے میں موجود خود سے چھوٹے کسی بھی ملک کو جب چاہے جارحیت کا نشانہ بنا سکتا ہے پاکستان نے اس روز ایک بار پھر خاک میں ملا کر اسے واضح پیغام دیا کہ امن و سلامتی کی حفاظت کے لیے پاکستان کی مسلح افواج ہر وقت مستعد اور چوکنا ہیں۔ اس دن پاک فضائیہ کی جوابی کارروائی سے بھارت کے سرجیکل سٹرائیک کے غبارے سے بھی ایسی ہوا نکلی کہ اس کے بعد کبھی بھارت کو ایسا کوئی دعویٰ کرنے کی کبھی جرا¿ت نہیں ہوسکی اور نہ ہی اس کے بعد بھارت نے کبھی ایسا کوئی ایڈونچر کرنے کی کوشش کی۔ اس معرکے میں واضح برتری حاصل کرنے کے باوجود پاکستان نے زیر حراست بھارتی پائلٹ ونگ کمانڈر ابھینندن ورتھمان کو خیر سگالی کے جذبے کے تحت گھر واپس بھیج کر یہ پیغام دیا کہ پاکستان خطے میں امن و سلامتی کے قیام کا خواہاں ہے۔
افسوس ناک بات یہ ہے کہ بھارت میں 2014ءسے انتہا پسندی کا جو نیا سلسلہ شروع ہوا ہے وہ کسی بھی طور قابو میں نہیں آرہا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے نریندر مودی کی شکل میں ایک ایسے شخص کو وزیراعظم بنا کر بٹھایا ہوا ہے جو نفرت اور شدت پسندی کے سوا اور کچھ جانتا ہی نہیں۔ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے نظریے کو فروغ دینے کے لیے وزیراعظم مودی نے جو پالیسی اختیار کر رکھی ہے اس کی وجہ سے پاکستان ہی نہیں بھارت کے تمام ہمسایہ ممالک اس سے نالاں دکھائی دیتے ہیں اور ان کی اس ناگواری کا اظہار کئی مواقع پر ہوچکا ہے۔ زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ بین الاقوامی برادری اور عالمی اداروں کے پاس ایسے بہت سے ٹھوس شواہد موجود ہیں جن کی بنیاد پر بھارت کے خلاف کارروائی کر کے اسے شر پسندی سے روکا جاسکتا ہے لیکن ایسا کیا نہیں جارہا جس کی وجہ سے بھارت کو مسلسل شہ مل رہی ہے۔
دہشت گردی کی جس حالیہ لہر نے پاکستان میں پنجے گاڑنا شروع کیے ہیں اس کے پیچھے بھی بھارت کا ہاتھ ہے اور یہ صرف ایک الزام نہیں ہے کیونکہ پاکستان اس قسم کے ثبوت کئی بار بین الاقوامی برادری کے سامنے رکھ چکا ہے جن سے واضح ہوتا ہے کہ پاکستان میں تخریب کاری کی کارروائیوں میں ملوث شدت پسند تنظیموں اور گروہوں کو بھارت براہِ راست ہر قسم کی امداد و اعانت فراہم کرتا ہے۔ پاکستان کی بہادر مسلح افواج ان خطرات سے نمٹنے کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کررہی ہیں تاہم اس سلسلے میں سیاسی قیادت وہ کردار ادا نہیں کررہی جو اسے کرنا چاہیے۔ ملک میں جاری سیاسی بحران صرف سیاسی قیادت ہی نہیں بلکہ زندگی کے تمام شعبوں کو متاثر کرتا ہے۔ ملک کا دفاع یقینا مضبوط ہاتھوں میں ہے لیکن اسے مضبوط تر بنانے کے لیے ہمیں ملک کی معاشی حالت میں بھی سدھار لانا ہوگا اور اس کے ساتھ سیاسی معاملات کو بہتر بنانا ہوگا۔ حالات اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ سیاسی قیادت کو اپنے اختلافات کو ایک طرف رکھ کر ملک کی سلامتی اور استحکام کے لیے متحد اور یکسو ہونا چاہیے۔
دفاعِ وطن کے لیے سیاسی قیادت کو بھی متحد ہونا چاہیے
Mar 01, 2023