ڈاکٹر اے کیو خان ہسپتال ٹرسٹ کی تعمیر اور تاریخ 


شوکت ورک
میں 2004ء کے دوران پی ٹی وی میں پروڈیوسر کرنٹ افیئرز کی حیثیت سے پیشہ ورانہ خدمات انجام دے رہا تھا، اس دوران پاکستان میں ایک کے بعد ایک نجی ٹی وی آ تا رہا، مجھے بھی ایک پرائیویٹ چینل کی طرف سے بہت اچھی آفر ملی جو میں نے اپنے بڑے بھائی میجر (ر) محمد طارق ورک سے مشاورت کے بعد قبول کرلی اور یوں پی ٹی وی سے میری پندرہ سال کی رفاقت آبرومندانہ انداز سے اختتام پذیر ہوگئی۔ نجی چینل جوائن کرنے کے بعد میں نے کالم نگاری بھی شروع کردی ،یہ دونوں تجربات بہت اچھے رہے۔ 2010 ء میں عمرہ کی سعادت حاصل کرنے کے بعد راقم جس وقت روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام پیش کررہا تھا تو اللہ ربّ العزت نے میرے قلب کایا پلٹ دی اور میرے دل میں ایک بڑا فلاحی ہسپتال قائم کرنے کا خیال پیدا فرمایا ، میں نے گنبد خضری کو گواہ بنا کر لاہور میں ایک فقیدالمثال فلاحی ہسپتال بنانے کا پختہ ارادہ کیا اور اپنے اس ارادے کی تکمیل کیلئے دعا کی جو الحمد للہ اس وقت مستجاب ہوئی جب وطن واپسی پر میں نے اپنے معتمد احباب سے مشاورت کے بعد لاہور میں فلاحی ہسپتال کی تعمیر کیلئے موزوں اراضی کی تلاش شروع کردی اور اس سلسلہ میںمختلف مقامات کا معائنہ کیا ، اس دوران میرا اپنے دیرینہ رفیق کار اور بڑے بھائی سابق مشیر وزیر اعلیٰ پنجاب و سابق ممبر پنجاب اسمبلی حاجی قیصر امین بٹ سے رابطہ ہوا ، انہوں نے فلاحی ہسپتال بنانے کے سلسلہ میں میرے عزم واستقلال اور پختہ ارادے کے بارے میں سنا تو انہوں نے مجھے مینار پاکستان کے سبزہ زار سے متصل راوی پارک میں اپنے والد سابق ڈپٹی میئر لاہور الحاج محمد امین بٹ مرحوم کی قیادت میں 1987ء سے انسانیت کی خدمت میں پیش پیش " بزم احباب ہسپتال" کے وزٹ کی دعوت دی جب میں نے بزم احباب ہسپتال کا دورہ کیا تو مجھے اس ادارے کا نظم و نسق دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی۔ مختصر رسمی گفتگو کے بعد حاجی قیصر امین بٹ نے چلتا ہوا بزم احباب ہسپتال عمارت اور آلات سمیت میرے سپرد کردیا اور بتایا کہ یہ میرے والد الحاج محمد امین بٹ مرحوم اور ان کے احباب نے انسانیت کی خدمت کے ارادے سے 1987ء میں شروع کیا تھا کیوں نہ ہم دونوں مل کر اس ہسپتال کو اپ گریڈ کرتے ہوئے اسے ایک جدید فلاحی ہسپتال بنادیں۔ میں نے اپنے معتمد احباب کے باضابطہ اجلاس میں انہیں اعتماد میں لیا اور انہیں ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو بزم احباب ہسپتال سے وابستہ کرنے کی تجویز دی جو انہیں بیحد پسند آئی۔
 ڈاکٹر عبدالقدیر خان ایٹمی سائنسدان ہونے کے ساتھ ساتھ ایک سینئر کالم نگاربھی تھے اور میں بھی سینئر کالم نگار اور ورلڈ کالمسٹ کلب کا مرکزی وائس چیئرمین ہوں لہٰذاء اس نسبت سے ہمارے درمیان باہمی احترام اور اعتماد کا رشتہ تھا۔ پرویز مشرف کے دور حکومت میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو جس طرح ٹی وی پر قوم سے معذرت کرنا پڑی اس اقدام سے ان کا دل بجھ گیا تھا ، اپنے گرد ایک مضبوط سکیورٹی حصار کے سبب وہ ایک طرح سے قید تنہائی میں چلے گئے تھے۔ ایک طرف پرویزی آمریت کے دورمیں کی جانیوالی معذرت کی صورت میں ملنے والی رسوائی اور دوسری طرف قید تنہائی اس نے فولادی اعصاب کے حامل ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو اندر سے بری طرح توڑ دیا تھا اور وہ فون پر مجھے اپنی قلبی کیفیت بتایا کرتے تھے۔ میں نے اپنے احباب سے کہا کہ ہمیں اپنے قومی ہیرو ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو اس اذیت ،احساس ندامت اور قید تنہائی سے باہر نکالنا ہوگا ، میرے احباب نے میری تجویز کی بھرپور اور پرجوش انداز میں تائید کی۔ اس کے بعد میں اور حاجی قیصر امین بٹ ہم دونوں مارچ 2012ء میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے ان کے گھر میں ملے اور انہیں بزم احباب ہسپتال کو ایک بڑا فلاحی ہسپتال بنانے کے بارے میں بریف کیا اور پرخلوص انداز میں انہیں اس نوبل کاز سے وابستہ ہونے کی دعوت دی جس پر انہوں نے معذرت خواہانہ انداز میں ہمیں بتایا کہ وہ خواہش کے باوجود اپنے ہیلتھ اور سکیورٹی ایشوز کے سبب اس کارخیر کا حصہ نہیں بن سکتے لیکن میرے اصرار پر وہ بزم احباب ہسپتال کے ساتھ منسلک ہونے کیلئے رضامند اور آمادہ ہوگئے۔ ہم بخوشی اور بامراد لاہور واپس آگئے اور اپنے احباب کو یہ نوید سعید سنائی۔ ہم نے جوش و جذبہ کے ساتھ بزم احباب ہسپتال کی اپ گریڈیشن اور ڈونرز تک رسائی کا کام شروع کردیا ، اس دوران مجھے خیال آیا کہ کیوں ناں اپنے قلم قبیلے کے ساتھی کالم نگار اور ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو متحرک اوران کی ساکھ بحال کرنے کیلئے بزم احباب ہسپتال ان سے موسوم کردیا جائے ، میں نے اپنے احباب سے مشاورت اور ان کی تائید کے بعد اس فیصلے سے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو آگاہ کیا تو ان کی خوشی دیدنی تھی۔ اس کے بعد ہم نے بزم احباب ہسپتال کا نام تبدیل کرتے ہوئے اس کو ڈاکٹر اے کیو خان ہسپتال ٹرسٹ کا نام رکھ دیا ۔ڈاکٹر عبدالقدیرخان کوان کی قومی خدمات دیکھتے ہوئے "محسن پاکستان" کا لقب بھی میں نے دیاتھا۔ہم نے 2013ء میں اپنے ٹرسٹ   کو باضابطہ طور پر گلبرگ ٹاؤن لاہور میں رجسٹرڈ کروایا۔ میرے روکنے کے باوجود ڈاکٹر عبدالقدیر خان بار بار ہمارے ادارے کی مختلف تقریبات میں اپنے خطاب کے دوران کہا کرتے تھے کہ " اس ہسپتال کی تعمیر کیلئے پہل ڈاکٹر شوکت ورک نے کی تھی اوراس نے مجھے شامل ہونے کیلئے کہا جاتا ہے اور اس کیلئے ورک بھائی کی بہت محنت  ہے" ، ان خطابات کی متعدد ویڈیوز ریکارڈ اور یوٹیوب پر موجود ہیں۔ 
2013ء کے بعد 2016ئ، 2019ء اور2021ء میں ہماری ترامیم شدہ ٹرسٹ ڈیڈ رجسٹرڈ ہو ئی تھیںاور ان چاروں میں بانی ٹرسٹی کی حیثیت سے راقم کا نام شامل ہے تاہم 2013ء سے 2021ء تک ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے میری تجویز کے باوجود ا پنے خاندان میں سے کسی کو ٹرسٹ میں شامل نہیں کیا، ان کا کہنا تھا ورک بھائی میں اپنی بیٹیوں کو جانتا ہوں وہ بعد میں اپنا حق جتانا اور آپ کو پریشان کرنا شروع کردیں گی۔ 2021ء میں کورونا جیسی مہلک بیماری کے نتیجہ میں اپنی وفات سے چند روز قبل ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے مجھے ، ٹرسٹی عائشہ نذیر اور مراد اولڈ ہوم کی سرکردہ شخصیات شمیم مراد مرحوم ، نرگس شمیم مراد ، نسیم مراد ، اظہار احمد اور اسد اللہ سمیت دوسرے ٹرسٹی حضرات کو اپنے گھر اسلام آباد میں مدعو کیا اور ہمارے اعزاز میں ظہرانہ کا اہتمام کیا جہاں ہمیں سوینئر ، اپنی کتاب اور مختلف تحائف پیش کئے اور مجھے کہا کہ ورک بھائی اب میری صحت مجھے ٹرسٹ کے معاملات دیکھنے کی اجازت نہیں دے رہی لہٰذا ء اب آپ سارے انتظامات خود دیکھیں، اس کے بعد بورڈآف ٹرسٹیز کے اجلاس میں اتفاق رائے سے مجھے قائمقام چیئرمین مقررکردیاگیا۔ اس تقریب کے چند روز پاکستان کو ناقابل تسخیر بنانیوالے ڈاکٹر عبدالقدیر خان لقمہ اجل بن گئے اور ان کی وفات کے بعد ان کی بیٹی نے اپنے والد کی طرف سے مبینہ طور پر تاحیات جانشین مقرر ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے اس سلسلہ میں ایک ا سٹامپ پیپر پیش کیا جو بعد ازاں تحقیقات کے بعد بوگس اور جعلی نکل آیا ، اس جعلی اسٹامپ پیپر کی پشت پر جس اسٹامپ فروش غلام رسالت کا نام اور ان کی مہر کا استعمال کیا گیاہے ۔
انہوں نے اے ڈی سی آر اسلام آباد کے آفس میں اپنے تحریری حلفیہ بیان میں مذکورہ ، متنازعہ اور جعلی اسٹامپ پیپر سے اظہار لاتعلقی کر تے ہوئے موقف اختیار کیا کہ مذکورہ اسٹامپ پیپر پر جو تاریخ اجراء ظاہر کی گئی ہے اس دوران میرے لائسنس کی تجدید ہونا باقی تھی۔ غلام رسالت کے تحریری حلفیہ بیان کی روشنی میں سرکاری ریکارڈ کی چھان بین کے بعد اے ڈی سی آر اسلام آباد نے بھی اپنے لیٹر میں  غلام رسالت کے موقف کی تصدیق کردی جس کے بعد ہم نے اپنے ادارے ڈاکٹر اے کیوخان ہسپتال ٹرسٹ کیخلاف سول کورٹ لاہور میں جعلی اسٹامپ پیپر استعمال کر نیوالے تین کس ملزمان کیخلاف ایف آئی آر کے اندارج کیلئے سی سی پی او لاہور کے آفس میں درخواست دے دی جوایس پی سٹی آپرپشنز سے ہوتی ہوئی پر ڈی ایس پی اسلام پورہ کوملی۔ڈی ایس پی اسلام پورہ نے بحیثیت مدعی مجھے اور میری درخواست میں نامزد تین کس ملزمان کو مختلف اوقات میں تین بار طلب کیا لیکن ملزم فریق میں سے کوئی حاضر نہیں ہوا بلکہ الٹا انہوں نے پولیس پر دباؤ ڈالنا شروع کر دیا۔ایس اوپی کی تکمیل کے باوجود پولیس کی معذوری اور مجبوری دیکھتے ہوئے ہم نے سیشن کورٹ لاہور میں ملزمان کیخلاف ایف آئی آر کے اندراج کیلئے 22اے 22بی کی رٹ پٹیشن دائر کردی جو انڈر ٹرائل ہے ، اپنے خلاف ممکنہ بلکہ یقینی ایف آئی آر درج رجسٹرڈ ہونے کے ڈر سے ہمارے نامزدملزمان میں سے ایک خاتون نے پاکستانیوں کوگمراہ کرنے کیلئے من گھڑت اور بے بنیاد پروپیگنڈا شروع کر دیا ۔ جو لوگ ٹرسٹ کے ضابطہ اخلاق اور سیاق وسباق سے آگاہ ہیں انہیں علم ہے کہ یہ کسی فرد واحد کا ورثہ نہیں ہوتا اور اس کا کوئی جانشین بھی نہیں ہوتا۔ 
ڈاکٹر اے کیو خان ہسپتال ٹرسٹ پر ڈاکٹر عبدالقدیر خان مرحوم کی جمع پونجی ہرگز صرف نہیں ہوئی ، وہ اس کارخیر کیلئے اپنا وقت ضرور صرف کرتے تھے لیکن ان کی طرف سے کوئی مالی اعانت شامل نہیں ہے ،یہ ادارہ شروع سے اب تک مختلف ڈونرز کے عطیات و زکوٰۃ اورخیرات سے تعمیر کے مختلف مراحل طے کررہا ہے۔دوسرا یہ کہ ٹرسٹ کا چیئرمین منتخب ہوئے کیلئے ٹرسٹی ہونا ازبس ضروری ہے جس طرح پارلیمانی نظام کے تحت کسی شخص کا وزیر اعظم منتخب ہونے کیلئے اس کا پارلیمنٹرین ہونا ضروری ہے۔ ڈاکٹر اے کیو خان ہسپتال ٹرسٹ جس اراضی پر زیر تعمیر ہے وہ متروکہ وقف املاک بورڈ کی ملکیت جبکہ اس کا لیز ایگریمنٹ راقم کے نام پر ہے اور یہ دشوار گزار کام راقم کی انتھک محنت اور طویل جدوجہد کے بعد ممکن ہوا کیو نکہ اس دوران کئی چیئرمین تبدیل ہوئے۔
 یہ بات نوٹ کیجئے ، ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی وفات کے بعد ہماری چوتھی مرمہ ٹرسٹ ڈیڈ میرٹ اور تسلسل کی بنیاد پر گلبرگ ٹاؤن لاہور میں رجسٹرڈ ہوئی۔ ہسپتال اور ہیڈ آفس شروع سے ہمارے زیرانتظام ہیں ، ادارے کا ہر سال تھرڈ پارٹی آڈٹ ہوتا ہے لہٰذاء ہمارے خلاف ہماری ملزم خاتون کی ہرزہ سرائی اور دشنام طرازی’’ایک تو چوری اوپر سے سینہ زوری ‘‘کے سوا کچھ نہیں۔ خود ساختہ تاحیات چیئرپرسن کی تقرری کا جعلی اسٹامپ پیپر تیار اور لاہور میں استعمال کرنیوالے جعلساز فریق نے سول کورٹ لاہور میں ہماری رجسٹرڈ ٹرسٹ ڈیڈ کو چیلنج کیا ہوا ہے ، اس فریق میں ایک بدنام زمانہ ٹھیکیدار بھی شامل ہے ،جس کو ہسپتال کے تعمیراتی کنٹریکٹ نہ دینے کا شدید غم و غصہ ہے۔ اس قماش کے لوگ بلیک میلنگ ، درخواست بازی جعلسازی ، کرپشن اور مقدمے بازی کے ماہر ہوتے ہیں تاہم ہمیں اپنی آزاد عدلیہ اوراداروں پر بھرپور اعتماد ہے۔ ہمارے پاس ناقابل تردید شواہد اور دستاویزات ہیں ، ان شاء اللہ  سچائی تک رسائی کی بنیاد پر ملزمان ناکام ونامراد جبکہ ہم سرخرو اور سربلند ہوں گے۔

ای پیپر دی نیشن