کراچی (اسٹاف رپورٹر) ضیاء الدین یونیورسٹی میں ’ ’ صنفی مساوات ہی ترقی پسند پاکستان کی ضامن ہے ‘ ‘ کے موضوع پر سترہویں زیڈ یو ڈائیلاگ کا اہتمام کیا گیا۔ ڈائیلاگ کا مقصد پیشہ وارانہ ترقی کے امتیازی سلوک ، قیادت کے مواقع اور دیگر پیشہ وارانہ خطرات کے بارے میں ماہرین کی رائے اور تجزیہ حاصل کرنا جو صنفی مساوات کی راہ میں حائل رکاوٹیں
ہیں۔اس موقع پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے ضیاء الدین یونیورسٹی کی پرو چانسلر ڈاکٹر ندا حسین کہا کہ صنفی امتیازکا ختم کرنے کیلئے ہمیں اپنی لڑکیوں کو تعلیم دلوانے کی ضرورت ہے۔ صنفی فرق تب ہی ختم ہوسکے گا جب ہماری مائیں، دادی، نانی اور بزرگ خواتین سمجھیں گی۔ ہمارے معاشرے میں صنفی فرق نظر نہ آنے کی وجہ یہ ہے کہ ہم قائدانہ صلاحیتوں کو مساوات کی بنیاد پر نہیں جانچتے ہیں اور نہ ہی پرکھتے ہیں۔ ہم ان مساوات کو صرف ایک ہی نگاہ سے دیکھتے ہیں چاہے وہ کوئی بھی شعبہ ہو۔ ہمیں ایک روشن خیال معاشرہ بنانے کی ضرورت ہے تاکہ خواتین کو بھی بااختیار بنانے کی اہمیت کو سمجھا جاسکے۔سابق وفاق وزیر برائے قانون بیرسٹر شاہدہ جمیل کا کہنا تھا کہ صنفی مساوات کی اہمیت پر ہمیں آواز بلند کرنے کی ضرورت ہے اور صنفی امتیاز معاشرے کے کسی بھی شعبے میں نہیں ہونا چاہیے۔ پاکستان ایک جنت ہے جہاں مرد و خواتین کو ایک دوسرے کی حوصلہ افزائی کرنے اور آگے بڑھنے میں ایک دوسرے کے معاون ہونے کی ضرورت ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل ہونے کیلئے مرد و خواتین کو برابر کا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔خواتین کی معاشرے میں اہمیت پر زور دیتے ہوئے مہتاب اکبر راشدی کا کہنا تھا کہ ثقافتیں بہت اہمیت کی حامل ہوتی ہیں جبکہ ورتیں ہیں عورتوں کی اصل دشمن ہوتی ہیں۔ اگر ہم خواتین چاہیں تو اپنے مردوں کے ساتھ مل کر ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔ دیہی علاقوں کی خواتین کو خاص طور پر امتیازی سلوک کا سامنا ہے وہاں کے مرد و خواتین دونوں میں آگاہی بیدار کرنے کی اشد ضرورت ہے۔کراچی ادب فیسٹول کی بانی امینہ سید کا کہنا تھا کہ یہ ضروری ہے کہ خواتین کو باضابطہ طور پر افرادی قوت میں شامل کیا جانا چاہیے، وہ خواتین جو گھروں میں کرتی ہیں یا گھروں سے باہر سرکاری یا غیر سرکاری۔ ایسی بہت سی لاکھوں خواتین جو سلائی کڑھائی یا گارمنٹس وغیرہ کے کام کرتی ہیں انہیں سرکاری طور پر افرادی قوت میں شامل نہیں کیا گیا ہے۔ یقینا صنفی یا امتیازی مساوات کا مسئلہ پاکستان میں شدید ہے لیکن یہ ایک عالمی مسئلہ بھی ہے۔ دنیا کی چالیس فیصد خواتین کام کرتی ہیں لیکن صرف پانچ فیصد ہی اعلی عہدوں پر فائز ہیں۔ اس لیے سماجی نقطہ نظر سے یہ بہت ضروری ہے کہ خواتین کو نہ صرف مواقع ملیں بلکہ برابری بھی ملنی چاہیے۔