صاحب ِ تاج بیویوں کے تاج محل

ہمارے ایک دوست پیشے کے اعتبار سے انجینئر ہیں،انھوں نے شہرکے پوش علاقے میں ایک خوب صورت گھر تعمیر کروایا،اور ازرہِ محبت (یا تحفظ) اُسے اپنی زوجۂ ماجدہ کے نام کردیا،لوگ جوق در جوق سمجھانے آئے کہ ’’میاں ! تم نے یہ کیاغضب ڈھایا،اپنی زندگی تو تباہ کرنی تھی، سو کرلی،ہمارا مستقبل بھی خطرے میں ڈال دیا۔‘‘انھوں نے بڑ ے اعتماد کے ساتھ جواب دیا،’’یار! اگرتم نے اپنے ان بے مصرف کاموں کو چھوڑ کر بیویوں کے مناقب پرلکھی ہوئی ایک آدھ کتاب ہی پڑھ لی ہوتی توکبھی ایسی باتیں نہ کرتے‘‘۔اس کے بعدانھوں نے رقت بھری آوازکے ساتھ ،بیویوں کی شان میں کچھ ایسی قصیدہ نگاری کی کہ یار لوگ واقعی پھوٹ پھوٹ کررونے لگے۔انھوں نے اپنے ارشاداتِ عالیہ جاری رکھتے ہوئے مزیدفرمایاکہ،’’یہ سچ ہے جس نے ماں کوستایا ،اس نے رکشہ ہی چلایا،بس اس میں میری طرف سے ایک اضافہ کرلیں کہ جس نے باربارستایا وہ( افتخارشفیع کی طرح) تدریس کے شعبے میں آیا‘‘۔اس کی یہ بات سن کر ہم تو شرم سے پانی پانی ہوگئے،لیکن شکر ہے اسے تیرنا نہیں آتاتھا۔ ہم تو ہم اس قدر مدلل اورجارحانہ جواب سن کر تمام شادی شدہ ہمدرد اپنا سا منہ لے کے رہ گئے۔ان کی گفتگو اتنی جامع ومانع تھی کہ’’ شدید کنوارے‘‘ لوگ توعمربھر اس کی تفہیم بھی نہ کرسکیں۔سچ پوچھیں تو بیوی بھی نفیِ ذات کی منزل تک پہنچنے کا ایک اہم وسیلہ ہے۔ اگرہم نے اسکے دلائل دینے شروع کردئیے تو تانیثیت کے بڑے بڑے علم برداروں کے تخت تختے میں بدل جائیں گے۔اور تواور تاج محل جیسی خوب صورت عمارت بھی ایک بیوی کے لیے تعمیر کی گئی تھی۔اس کے باوجود غیرممکن ہے کہ کسی خاتون خانہ نے اپنے گرونواح کے معاملے میں الجھنے کے لیے کوئی مرتبہ اصول وضوابط نہ وضع کیے ہوں،کسی شاعر نے کہا ہے:
کبھی ہمسائی سے جھگڑا ،کبھی ہمسائی سے پیار
میری بیوی کی ہراک بات نرالی سی ہے
میں نے پوچھا کہ تمھارا یہ وطیرہ کیا ہے
ہنس کے بولیں ’’یہ مری خارجہ پالیسی ہے‘‘
ملکی خارجہ پالیسی پر نجی اورعوامی محفلوں میں ہماری گفتگو بہت پسندکی جاتی ہے ،لیکن خاتونِ خانہ کی امورِ خارجہ میں مہارت کا مشاہدہ کرتے ہوئے ہم بے اختیار گھگھیانے لگتے ہیں۔اس بارگاہ میں تو بادشاہوں نے بھی عجز اور انکسار سے کام لیا۔ابھی ہمارے روحانی ہم مکتب انجینئر بادشاہ شاہجہاں کی بات ہورہی تھی جس نے آگرہ میں اپنی ملکہ کے لیے تاج محل جیسا شاہکار نمونہ تعمیر کروایا ۔آگرہ ،لاہور، دہلی اور فتح پورسیکری میںجودھاکے مقبرے،موتی محل،سیدسلیم چشتی ؒکی درگاہ اوردیوان عام و خاص وغیرہ کے جھروکوں، محرابوں، میناروں، حجروں اورگنبدوںکی شان وشوکت اپنی جگہ لیکن تاج محل کے سامنے ان تمام عمارتوں کی چمک ماند پڑجاتی ہے ۔یہ محبت کی ایک ایسی نشانی ہے جسے دیکھ کرنفرت کا بیج بونے والوں کو سرتسلیم خم کرنا پڑتا ہے۔تاج محل کی وجہ سے آگرہ میں کروڑوں روپے کا لین دین ہوتا ہے۔
ہمارے کچھ سوشلسٹ دوست جب بادشاہ کے تاج محل پراٹھنے والے اخراجات کو عیاشی سے تعبیر کرتے ہیں تو سرمایہ دار بھائی اس سے حاصل ہونے والی آمدنی پر بے اختیار سر دھننے لگتے ہیں۔ہم تو اس کو بھی ممتاز محل کی محبت کا تصرف سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں کا بنوایا ہوا یہ قیمتی محل ہمسایہ ملک کے لیے ریونیو کا ذریعہ بناہواہے ۔
آج سے چند سال پہلے کراچی سے ’’عمارت کار ‘‘کے نام سے ایک رسالہ شائع ہوتا تھا۔اس میں ہم پر یہ انکشاف بھی ہو اکہ برصغیرمیں ایک نہیں بلکہ دو تاج محل ہیں۔دوسرا تاج محل جنوبی ہندمیں ہے۔اسے ’’بی بی کا مقبرہ‘‘یا ’’دکن کا تاج محل‘‘ کہاجاتا ہے۔بعض روایتوں کے مطابق اس کی تعمیرکا آغاز اورنگ زیب عالمگیر نے کروایا،یہ اس کی بیوی دل راس بانو کی محبت میں بنوایا گیا۔ چونکہ بادشاہ ٹوپیاں سی کر گزارا کرتاتھا اس لیے اس کی قناعت پسندی نے یہ گوارا نہ کیا کہ بیوی کی محبت میں کی گئی یہ کاوش اس کی آخرت کوتباہ کرے۔اس لیے محبت کی اس نشا نی کی تعمیر بادشاہ کے بڑے بیٹے اعظم شاہ کی نگرانی میں ہوئی۔پہلی نظرمیںاس عمارت پر تاج محل کا شائبہ ہوتا ہے ،لیکن جب دونوں کو ایک ساتھ دیکھا جائے تویہ اصل کی ایک کم ترسی نقل لگتی ہے۔ہم نے بیوی کی محبت میں تعمیر ہونے والے دو تاج محلوں کا ذکر کیا ،صاحبو!جب ان کا سنتے یاپڑھتے ہیں تو بے مایگی کے عالم میں منہ سے بے اختیار آہ سی نکل جاتی ہے۔ ایک سے زیادہ مرتبہ تو ہم نے اپنے جیسے کم وسیلہ شوہروں کو بہ حسرت ساحرلدھیانوی کی نظم ’’تاج محل‘‘ کا یہ شعرپڑھتے ہوئے دیکھا ،جس کا ایک شعر ہمیں اب بھی یاد ہے:
اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر 
ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق
اس شعر کی روشنی میں اب تک تو ہم یہی سمجھے تھے کہ محبت میں امر ہونے کے لیے مال ومنال کا فراواں مقدار میں ہونا ضروری ہے۔اس دوران میں ہمیں ہندوستان کے بلندشہرکے ایک نواحی گائوں کے ایک شوہر نے بارے میں بتایا گیا جس نے چندسال پہلے اپنی بیوی کی محبت میں تاج محل بنوایا ہے۔یہ ایک ریٹائرڈ پوسٹ ماسٹرفیض الحسن قادری تھے جنھوں نے اپنی مرحوم بیوی تجملی بیگم کی یاد میں شاہجہاں اور اورنگزیب کی طرح ایک چھوٹا سا تاج محل بنوایا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اسے عوامی یا سرکاری رقم کی بجائے ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعدملنے والے واجبات سے تعمیرکیا گیا ہے۔
 تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ دونوں میاں بیوی زندگی میں اولاد کی نعمت سے محروم رہے۔ایک دن بیگم سخت بیمار تھی، اس نے افسردگی کے عالم میں شوہر سے شکوہ کیاکہ،’’میں مرگئی تو میری قبرکا نشان تک سلامت نہیں رہے گا‘‘،شوہر نے عہد کیا کہ میں تمھاری ایسی قبربنائوں گا جسے لوگ دہائیوں تک یادرکھیں گے ۔شوہر نے اپنی بیوی کو بعدازمرگ خراج پیش کرنے کے لیے ساری جمع پونجی اس مقبرے کی تعمیر پر خرچ کردی جو واقعی ایک چھوٹا سا تاج محل ہے۔ فیض الحسن قادری بھی انتقال کے بعد اسی مقبرے میں دفن ہوئے ہیں۔یہ عشق ومحبت کی ایک آفاقی کہانی ہے جس کے سامنے شاہجہاں اور ممتاز محل یا اورنگ زیب اور دلراس بانو کی بنائی ہوئی عمارتیں ہیچ لگتی ہیں۔ہم نے بات اپنے اس دوست سے شروع کی تھی جس نے اپنا نیا نویلا گھر پرانی دلہن کے نام لگا دیاتھا ۔اب اس تحقیق کے بعدہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ بیویاں واقعی دنیااور آخرت میں بخشش اورنجات کا ذریعہ ہیں۔اگرہمارے کسی مہربان قاری کواس بات پر اعتراض ہو تو یہ کالم اپنی بیگم صاحبہ کو پڑھائے۔ہمیں یقین ہے کہ وہ ہماری بات سے اتفاق کریں گی ،اس صورت میں آپ کو بھی چاہتے نہ چاہتے ان کی ہاں میں ہاں ملانی پڑے گی۔  

ڈاکٹر افتخار شفیع- سرمایہ¿ افتخار

ای پیپر دی نیشن