ماہ رمضان کی آمد اور مہنگائی کا عفریت !

نومنتخب حکومت کا سب سے بڑا امتحان ملک میں معاشی استحکام اور مہنگائی پر کنٹرول ہے جس نے ملک کی 98 فیصد عوام کا جینا حرام کر رکھا ہے۔ اشیائے خورو نوش سے لے کر ادویات تک ان کی قوت خرید سے باہر ہو چکی ہیں۔ ہرگزرتے سال کے بعد بجلی اور گیس کی تسلسل کے ساتھ بڑھنے والی قیمتوںنے الگ سے عوام کی مشکلات میں اضافہ کیا ہے۔اوپر سے ماہ رمضان کی امد سے ایک ماہ پہلے ہی سبزیوں ‘ پھلوں اور اجناس کی قیمتوں میں تاجروں کی طرف کیے جانے والے اضافہ نے لوگوں کی مشکلات کو مزید بڑھا دیا ہے۔ جبکہ ہماری طبقہ خواص پر مشتمل سیاسی اشرافیہ حسب روایت عوام کو درپیش مساائل سے لاتعلق نظر آتی ہے۔ ویسے بھی یہ کوئی پہلا موقع نہیں جب ماہ رمضان کے بابرکت مہینے کو ہمارے ملک کے تاجروں نے کمائی کا سیزن قرار دے کر اشیائے خورو نوش کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ کیا ہو۔ یہ سلسلہ کئی دہائیوں سے اسی طرح جاری ہے۔ 
اخبارات کی پرانی فائلیں اٹھا کردیکھ لیں ہر سال رمضان کی آمد پر تاجروں کی طرف سے برپا کی جانے والی خود ساختہ مہنگائی اور اس کے خلاف عوام الناس کے احتجاج سے متعلق خبروں سے اخبار بھرے ملیں گے جس پر قابو پانے کی بجائے ہماری صوبائی حکومتیں رمضان پیکیج کے نام پر شہروں میں سستے رمضان بازاروں کے قیام کے نام پر اربوں روپے خرچ کردیتی ہیں۔ لیکن اس کے ثمرات بھی سستے رمضان بازاروں میں ناقص پھل و سبزیاں فراہم کرنے والے مخصوص آڑھتیوںاور رمضان بازار کا اہتمام کرنے والوں تک ہی محدود رہتے ہیں۔
گو نومنتخب وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے ماہ رمضان میں نگہبان کے نام سے ریلیف کا خوش آئند اعلان کیا ہے جس کے تحت اشیائے خورونوش پر مشتمل سامان غریب عوام کو ان کے گھروں کی دہلیز پر پہنچانے کا اہتمام کیا جائے گا۔ علاوہ ازیں شہروں میں سستے رمضان بازار لگانے اور پرائس کنٹرو ل کو بھی مؤثر انداز سے لاگوکرنے کی نوید سنائی گئی ہے جوکہ یقینا عام صارف کیلئے خوشی کا باعث بنے گی۔ تاہم جہاں تک رمضان پیکیج کے نا م پر سستے بازاروں کا تعلق ہے تو یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ صوبائی حکومتوں کی طرف سے رمضان پیکیج کے نام پر مختص کی گئی رقوم ماضی میں کبھی بھی اکثریتی عوام کے لیے سود مند نہیں رہیںکیونکہ ان کے پاس روزی روٹی کے لیے مزدوری یا ملازمت پیشہ افراد کے لیے طویل مسافت طے کرکے سستے بازاروں تک پہنچنے کا وقت نہیں ہوتا۔ نہ ہی گھریلو خواتین ان بازاروں سے استفادہ کرسکتی ہیں۔ہاں البتہ شہر کے مختلف حصوں میں قائم ان بازاروں تک قریبی رہائشیوں کی رسائی ضرور ہوتی ہے لیکن وہ بھی ناقص اشیاء کی شکایت کرتے دکھائی دیتے ہیںاور چھوٹے قصبات کی آبادیاں اس طرح کی ’’کاسمیٹک‘‘ سہولیات سے ویسے ہی محروم رہتی ہیں۔ علاوہ ازیں ضلعی انتظامیہ کا زیادہ تر وقت وزراء اور دیگر اہم حکومتی شخصیات کی طرف سے مختلف شہروں میںقائم رمضان بازاروں کے دوروں پر انہیں پروٹوکول دینے اور ان راستوں کی صفائی ستھرائی پر صرف ہو جاتا ہے جہاں سے گزر کر صاحب بہادروں نے رمضان بازار تک پہنچنا ہوتا ہے۔ اس طرح کی بھاگ دوڑ سے نہ تو عوام کو کسی طرح کا فائدہ پہنچتا ہے نہ ہی مہنگائی میں کوئی کمی آتی ہے۔ البتہ وزراء اور ضلعی انتظامیہ کو اپنی کارکردگی دکھانے کا موقع ضرور میسر آجاتا ہے۔ 
حالیہ معاشی مشکلات کے دوران آنے والا رمضان اس لیے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ غربت‘ بے روزگاری اور مہنگائی کی چکی میں پسنے والے عوام نے اپنی امیدیں نومنتخب حکمرانوں سے وابستہ کررکھی ہیں تو دوسری طرف نئی حکومت کیلئے بڑا مسئلہ اپریل میں آئی ایم ایف سے تین سال کیلئے 6ارب ڈالر کیلئے قرض کا حصول اور اس کے لیے آئی ایم ایف کی نئی شرائط پر ملک میں نئے ٹیکسوں کا نفاذ ہوگا۔ ماضی میں ہمارے یہی حکمران آئی ایم ایف کی شرائط کے پیش نظر مراعات یافتہ طبقات اور اشرافیہ کی آمدن کو ٹیکس کے دائرے میں لانے کی بجائے حکومتی آمدن بڑھانے کیلئے سارا بوجھ پہلے سے پیسے ہوئے عوام پر ڈالتے رہے ہیں۔ جو ضرورت کی ہر چیز کی خریداری پر بھاری ٹیکس کی ادائیگیوں پر مجبور ہیں۔ علاوہ ازیں بجلی اور گیس پر دی جانے والی رعایتوں کا خاتمہ کے بعد آئندہ کیلئے آئی ایم ایف کی شرائط پر بجلی و گیس کی قیمتوں میں مزید اضافے کے خدشات نے ا بھی سے عوام کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں۔ حالانکہ آئی ایم ایف کے ذمہ داران بتا چکے ہیں کہ وہ پاکستان کی حکومتوں سے ملک میں ٹیکس ادا کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ کا مطالبہ کرتے ہیں جس میں بہت سے ایسے منافع بخش کاروبار اور ذرائع شامل ہیں جنہیں ٹیکس نیٹ میں نہیں لایاجاتا ۔ اس کے برعکس پاکستان کی حکمران پہلے سے ٹیکس کی ادائیگی کرنے والوں پر مزید ٹیکس لگانے کا آسان راستہ اختیار کرتے ہیںجس کا لازمی اثر عام صارف پر پڑتا ہے۔ 
ان حالات میں پاکستان کی نومنتخب حکومت اگر رمضان شریف میں عوام کوناجائز منافع خور تاجروں سے تحفظ فراہم کرنے، پھل و سبزیوں اور اجناس کو ذخیرہ کرکے رسدو طلب کے نظام کو اپنے فائدے کیلئے کنٹرول کرنے والے عناصر کے خلاف کارروائی کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو اس طرح ایک تو عوام میں اعتماد پیداہوگا کہ ان کے منتخب کردہ حکمران صرف مراعات یافتہ طبقات کے مفادات کا ہی خیال نہیں رکھتے ان کے دل میں غریب عوام کی دادرسی کا جذبہ بھی موجود ہے۔ دوسرا حکومت سستے بازار ، رمضان پیکیج کی مشن سے بھی بچ جائے گی۔ اس کے ساتھ ہی اگر حکومت اپنے غیر ضروری اخراجات میں کمی لاتے ہوئے عوام کے سامنے سادگی کی مظاہرہ کرے تو عوام میں احساس بیدار ہوگا کہ وہ کسی بادشاہ کی ریاست میں بسنے والی رعایا نہیں بلکہ جمہوری ملک کے عوام ہیںجس میں شاہ وگدا اپنے ووٹ کی برابری کی بدولت ایک جیسے رویے اور احترام کے حقدار ہیں۔ 
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن