کسی کی سیاسی وابستگی سے قطع نظر اور نظریاتی اختلاف اپنی جگہ ، تجزیاتی فکر اور شعور رکھنے والا ہر پاکستانی جانتا ہے کہ مریم نواز نے انتہائی مشکل اور کٹھن حالات میں نہ صرف اپنے والد ِ محترم کی سیاسی تاریخ کو تسلسل بخشا ہے بلکہ ن لیگ کی لڑکھڑاتی کشتی کو سہارا دے کر پورا پورا سنبھالا دیا ہے۔ ان کی ثابت قدمی ، حوصلہ ، دلیری ، بیباکی ، مستقل مزاجی اور سیاسی جدوجہد کا اعتراف میرے جیسا سرمایہ دارانہ سیاست کا نظریاتی مخالف بھی کیے بغیر رہ نہیں سکا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاور کوریڈورز کی آشیرواد کے بغیر اب دنیا کے کسی بھی ملک میں سیاسی کامیابی ممکن نہیں لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اس دوڑ میں بہت لوگ شامل ہوتے ہیں اور تن من دھن سے لگے ہوتے ہیں اور ظاہر ہے کامیابی کسی ایک کو ہی ملنا ہوتی ہے۔ مریم نواز کے راستے کی رکاوٹیں تو خود خاندان اور پارٹی کے اندر بھی موجود تھیں۔ انہوں نے اپنے راستے میں آنے والی ہر مزاحمت کو کچلتے ہوئے کامیابی حاصل کی ہے۔ لیکن میڈم چیف منسٹر! سیاست کانٹوں بھرا راستہ ہے جس پر قدم قدم پر بھول بھلیوں اور ٹریپس کو باقاعدہ انسٹال کیا جاتا ہے۔ آپ سے پہلے والی نگران حکومت ہوسکتا ہے اپنے انسٹالرز کی نظروں میں کامیاب رہی ہو لیکن عوام کے دلوں میں کوئی جگہ نہیں بنا سکی جبکہ میاں شہباز شریف کے میگا پراجیکٹس اور ایڈمنسٹریشن ، اور چوہدری پرویز الٰہی کی 1122 کی سروس انکے جانے کے بعد بھی سیاسی تذکروں میں زندہ ہے۔ میڈم چیف منسٹر مجھے دوسرے لوگوں کا تو علم نہیں کہ وہ کیا سوچتے ہیں لیکن مجھے لگتا ہے کہ مریم نوازشریف صرف نعروں اور باتوں کی حدتک نہیں بلکہ عملی طور پر پچھلی حکومتوں سے کئی قدم آگے نکل کر صوبے اور صوبے کے عوام کے لیے حقیقی خدمات سرانجام دینے کا جذبہ رکھتی ہیں۔ مگر اس کے لیے انہیں کاسمیٹک ڈویلپمینٹ کی بجائے حقیقی تعمیر و ترقی کو ترجیح دینا ہوگی۔ لنگر خانوں کی بجائے روزگار اور ہیلتھ کارڈ کی بجائے پنجاب سرکاری ہسپتال بنانے ہونگے۔ پورے صوبے میں سرکاری سکولوں کا نظام بہتر کرنا ہوگا اور جدید پبلک ٹرانسپورٹ متعارف کرانا ہوگی۔
صحافیوں سے تھوڑی توجہ ہٹا کے صوبے کو دو نمبر ادیبوں اور ان کے غیر تعمیری ادبی فیسٹیولز سے جان چھڑوا کر حقیقی ادیبوں کو عزت اور زندہ رہنے کی سہولتیں فراہم کرنا ہونگی۔ میڈم چیف منسٹر نے اگر صرف اسلامک مائیکروفائنانس ماڈل کے تحت پنجاب کے دیہی علاقوں کو لائیو سٹاک کے خصوصی پراجیکٹ سے نواز دیا تو میں انہیں یقین دلاتا ہوں کہ آنے والا وقت ان کا وقت ہوگا۔ آج انہوں نے اگر صوبے کو مصنوعی اور کاغذی ترقی کی بجائے تھوڑا بہت بھی حقیقی سہارا دے دیا تو ان کے مقابلے میں صرف وہی رہ جائیں گی کیونکہ یہاں جو بھی آیا ہے ایک ایک دو دو پْل شْل بنا کے نکل گیا ہے۔ ملک بھر کے عوام لْٹو اور پھٹو قسم کے سیاستدانوں سے اس قدر تنگ آ چکے ہیں کہ ان کو دیکھنا تک نہیں چاہتے۔ لیکن یہ بھی طے ہے کہ اگر مریم نواز نے صرف دس بیس فیصد بھی سماجی اور معاشی ویژن کے ساتھ اصلی کام کردکھایا تو اگلی پرائم منسٹر بھی وہی ہونگی۔ موجودہ سیاسی صورتحال میں ایک تو یہ سمجھنے کی اشد ضرورت ہے کہ سوائے ایک پارٹی کے باقی تمام سیاسی پارٹیاں اپنی سیاسی ساکھ کھوچکی ہیں اور وہ جو ایک پارٹی کی ساکھ نظر آ رہی ہے وہ بھی کوئی ان کی سیاسی خدمات یا قومی و عوامی خدمات کی بنیاد پر نہیں بنی بلکہ دوسری 14 جماعتوں کی بْری ساکھ کی وجہ سے بنی ہے اور اسٹیبلشمنٹ مخالف جذبات کی وجہ سے بنی ہے ورنہ کہاں گئیں ایک کروڑ نوکریاں اور کہاں گئیں سستے گھروں کی سکیمیں۔
مجھے خوشی ہے کہ مریم نواز نے رشدہ لودھی جیسی محنتی اور وفادار پارٹی ورکر کو خصوصی سیٹ سے نوازا ہے۔ رشدہ لودھی کی بطور وکیل رہنما جدوجہد اور محنت پورے لاہور کے سامنے ہے۔ اس نے اس وقت بھی پارٹی کا دامن تھام کے رکھا جب پارٹی سے وابستگی کو لوگ سیاست میں ناکامی کی علامت سمجھ رہے تھے۔ یقیناً وہ اپنی کابینہ بھی سوچ سمجھ کر چنیں گی اور پھر اپنے وزراء سے کام بھی لیں گی۔ انہوں نے جس طرح سوشل میڈیا پر فرد واحد اور ون وومن آرمی کے طور پر مخالفیں کے دانت کھٹے کیے ہیں صوبے کی معیشت میں بھی انقلاب برپا کر سکتی ہیں۔ میڈم چیف منسٹرکو یقیناً یہ ادراک کسی سے بھی زیادہ ہوگا کہ فرسٹ امپریشن از دی لاسٹ امپریشن۔ اگر انہوں نے اس موقع سے فائدہ نہ ٹھایا جو خدا تعالیٰ نے انہیں دیا ہے تو پھر آگے کیا ہوگا اس کا اندازہ بخوبی کیا جاسکتا ہے۔ اگرچہ ہسپتالوں کے ایمرجنسی وارڈز میں ادویات مفت دینے کا اعلان اچھا ہے لیکن عوام کو پتہ ہے کہ ان ادویات میں صرف سستی ترین ادویات ہی دی جائیں گی۔ مہنگی ادویات دینے کا قانون بن بھی گیا تو باہر و باہر فروخت کرکے پیسے تقسیم کرلیے جانے کے امکانات زیادہ ہیں۔ شہر بھر کو وائی فائی مفت دینے کے اعلان میں پہلے سے بگڑ چکی کم پڑھی لکھی نوجوان نسل کے مزید بگڑ کر وقت ضائع کرنے کے سوا کوئی بہتری نہیں آئیگی۔ جن لوگوں نے وائی فائی کے ذریعے اپنے کاروبار چلانے ہیں یا ریسرچ ورک کرنا ہے انہیں سٹریٹ وائی فائی کوئی فائدہ نہیں دینے لگی۔ میڈم چیف منسٹر آپ کو سولڈ اور مضبوط کام کرنے ہونگے اور آپ کرسکتی ہیں۔ جلدی نہ کریں بلکہ بہت سوچ سمجھ کے شارٹ ٹرم اور لانگ ٹرم منصوبوں کی منصوبہ بندی کریں۔ بجٹنگ کریں۔ یہ دیکھیں کہ کتنا پیسہ خزانے میں کس کام کے لیے موجود ہے اور کس پراجیکٹ کے لیے کتنا کہاں سے آئیگا۔ گراس روٹ لیول پر کاٹیج انڈسٹری اور انٹرپرینورشپ کو سکیل اپ کرنے سے جو نتائج آ سکتے ہیں وہ اب غالباًٍ ہیوی انڈسٹری سے بھی نہیں آ سکتے۔ ہر سطح پر پیداواری سرگرمیاں بڑھانی ہونگی۔ مجھے یقین ہے کہ اس کیلئے جس جذبے اور انرجی کی ضرورت ہے وہ خدا تعالی نے مریم نواز کو دل کھول کر دی ہے۔ اللہ کرے کہ وہ دیانتدار اور لائق لوگوں کی ٹیم بنانے میں کامیاب ہوجائیں کیونکہ ابھی سب کچھ آوٹ آف فوکس سوچنے اور جم کر عمل کرنے کی ضرورت ہے ۔ انکی کامیابی کے پیچھے ان کے مینٹورز ، اساتذہ اور مشیروں کو بھی بہت داد جنہوں نے انہیں مشکل سے مشکل وقت میں بھی ڈگمانے نہیں دیا۔ اب انکا بھی اصلی امتحان شروع ہوچکا ہے۔ نیت صاف ہوگی اور خدا پر بھروسہ قائم ہوگا تو ان کے ہر اچھے کام میں خدا تعالیٰ کی مدد شامل ِ ہوتی جائیگی۔ گڈلک میڈم چیف منسٹر۔