بلوچستان کی ساحلی پٹی میں طوفانی بارشیں۔ گوادر اور جیوانی ڈوب گئے۔
گزشتہ دو روز سے بلوچستان کے ساحلی علاقے میں شدید بارش نے طوفان کا ماحول بنا دیا ہے۔ تیز ہوائوں کے ساتھ ہونے والی ان بارشوں سے جیوانی، گوادر سیلاب کی وجہ سے ڈوب گئے۔ یوں لگتا ہے گویا سمندر نے آبادیوں کو نگل لیا ہے۔ تاحد نظر صحرا میں پانی ٹھاٹھیں مار رہا ہے۔ یہ پہلی دفعہ نہیں ہوا۔ کئی سالوں سے ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے موسمی بارشوں نے بھی اپنا وقت بدل لیا ہے۔ اب سرما کی بارشیں وسط فروری تا وسط مارچ ہوتی ہیں اور ہم ہیں کہ ان تمام نقصانات سے باخبر ہونے اور ہر سال ان سے نبردآزما ہونے کے باوجود ان سے بچائو کی کوئی راہ نہیں نکالتے۔ ہر سال ہائے ڈوب گئے مر گئے، گھر گِر گئے، کشتیاں ٹوٹ گئیں کا واویلا اٹھتا ہے مگر حکومت کوئی منصوبہ بندی نہیں کرتی۔ سیلابی پانی سے بچائوکی یا اسے محفوظ کرنے کی۔ اس وقت ندی نالے بپھرے ہوئے ہیں ہر طرف پانی یہ پانی ہے۔ بقول شاعر
جہاں قطرے کو ترسایا گیا ہوں
وہیں ڈوبا ہوا پایا گیا ہوں۔
ناقص منصوبہ بندی اور غیر معیاری تعمیرات کی وجہ سے 3 بند ٹوٹ گئے ہیں ویسے بھی جو بند سیمنٹ کی بجائے ریت اور گارے سے بنیں گے وہ منہ زور پانی کی راہ کیا روک پائیں گے۔ یہ بند اور سڑکیں یا ڈیم صرف وزرا اور ٹھیکیداروں کی جیب گرم کرنے کے لیے بنائے جاتے ہیں۔ ان کا مقصد عوام کو مشکلات سے بچانا نہیں اپنی کمیشن پکی کرنا ہوتی ہے۔ اس بار تو گوادر میں واقعی آسمان ٹوٹ کر برسا 200 ملی میٹر بارش نے حقیقت میں جل تھل ہی نہیں سمندر کو بھی ایک کر دیا۔ ابھی تو گزشتہ بارش اور سیلاب کے متاثرین کی داد رسی نہیں ہو پائی کہ یہ نئی افتاد ٹوٹ پڑی ہے۔
٭٭٭٭٭
خیبر پی کے اسمبلی کا اجلاس۔ خاتون رکن پر جوتے اور لوٹے پھینکے گئے۔
ویسے تو سندھ اور پنجاب اسمبلی کے اجلاس بھی کوئی پرامن نہیں تھے۔ یہی شور شرابا اور نعرے بازی عام تھی مگر اس طرح کی بدنظمی اور بدمزگی جو خیبر پی کے اسمبلی کے اجلاس میں دیکھنے میں آئی ، کہیں اور دیکھنے کو نہیں ملی۔ خیبر پی کے میں اول تو رکھ رکھائو تہذیب و ثقافت کی وجہ سے ایک مخصوص ماحول ہے مگر اسمبلی میں داخلے کے وقت جس طرح لوگ جلوس کے انداز میں دھکم پیل کرتے ہوئے داخل ہوئے اس کو دیکھتے ہوئے تو لگتا ہے اب اسمبلی ہالوں میں مہمانوں کے داخلے پر پابندی لگانا ہو گی یا ان کی تعداد محدود کرنا پڑے گی۔ اس کے علاوہ پہلی مرتبہ کسی خاتون رکن اسمبلی پر یوں جوتے اچھالے گئے اور لوٹے پھینکے گئے۔ بے شک ان کا تعلق کسی بھی جماعت سے ہو مرد ارکان اسمبلی کو بہرحال عورتوں کے حوالے سے احترام کا دامن ہاتھ سے چھوڑنا نہیں چاہیے کیونکہ کل کو کسی بھی پارٹی کی خاتون رکن کے ساتھ یہی کچھ ہو سکتا ہے۔ مسلم لیگ (نون) کی رکن اسمبلی ثوبیہ شاہد نے گھڑ ی اٹھا کر نعرے لگائے۔ پی ٹی آئی کے آزاد ممبران نے مسلم لیگ کے خلاف نعرے بازی کر کے اپنا رنگ جمایا تو اس پر خدا جانے کس رکن اسمبلی نے یا مہمانوں کی گیلری سے ثوبیہ پر جوتے اور لوٹے پھینکے۔ یہ ایک نہایت سوقیانہ حرکت تھی۔ خاص طور پر خیبر پی کے جیسے علاقے میں جہاں عورت جو بھی ہو اس کی عزت و حرمت کی پاسداری کی جاتی ہے۔ ہر اسمبلی میں خواتین ارکان احتجاج کرتی ہیں مگر ان پر آج تک کسی نے جوتا نہیں اچھالا۔ یہ روایت خدا نہ کرے قائم ہو اور خیبر پی کے اسمبلی کے اس اجلاس کے ساتھ ہی یہ حرکت بھی ختم ہو جائے۔
٭٭٭٭٭
مصطفی کمال کے بعد کامران ٹیسوری کی مبینہ آڈیو سامنے آ گئی۔
اب جدید دور ہے۔ کسی کی ویڈیو وائرل ہو رہی ہے اور کسی کی آڈیو۔ اب واضح ہے جو لوگ یہ چیزیں وائرل کرتے ہیں وہ کوئی اچھی بات یا صلح والی ویڈیو وائرل کرنے سے تو رہے۔ وہ کوشش کرتے ہیں کہ چٹ پٹی مصالحے دار ویڈیو یا آڈیو ہو تاکہ دیکھتے ہی دیکھتے لوگوں کی توجہ حاصل کرے اور جو وہ لوگ چاہتے ہیں وہ مقاصد حاصل ہوں۔ اب کی بار ساجھے کی ہنڈیا چوراہے میں پھوڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ جی ہاں۔ اس وقت مرکز میں مسلم لیگ نون پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم مل کر حکومت سازی کی طرف بڑھ رہی ہیں تو ایسے میں پہلے ایم کیو ایم کے رہنما مصطفی کمال کی آڈیو سامنے آئی جس میں وہ الیکشن کے حوالے سے اور اس کے نتائج کے حوالے سے وہ کچھ کہہ رہے ہیں جو آج کل سوشل میڈیا میں عام ہے۔ اسکے بعد پیپلز پارٹی کے رویہ کا شکوہ ہے اور مسلم لیگ ن کی بے اعتنائی کا ذکر ہے۔ اگرچہ اب ان کی طرف سے اچھا خاصہ تردیدی بیان آ چکا ہے۔ مگر زبان سے نکلی بات کمان سے نکلا تیر کب واپس ہوتا ہے۔ اسی طرح اب گورنر سندھ کامران ٹیسوری کی بھی مبینہ آڈیو سامنے آئی ہے جس میں وہ بھی اسی قسم کا شکوہ کر رہے ہیں۔ اب اس شکوہ اور جواب شکوہ سے اس نئے حکومتی اتحاد پر کیا اثر ہوتا ہے وہ معلوم نہیں مگر حکومت سازی کے لیے سب یہ کڑوا گھونٹ پینے پر مجبور ہیں اور معاملہ چند ایک بیانات کے بعد رفع دفع ہو سکتا ہے۔ مگر اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ بھان متی کا کنبہ زیادہ دیر متحد نہیں رہ پاتا کیونکہ شرارت کرنے والے ان کی ٹانگیں کھینچتے رہیں گے تاکہ کسی بھی وقت کوئی جذباتی ماحول پیدا ہو اور یہ کاٹھ کی ہنڈیا چولہے پر ہی جل کر راکھ ہو جائے سو اب آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔ فی الحال تو راوی چین ہی چین لکھتا ہے۔ سو حکومت سازی سے قبل نیا اتحاد بھی چین سے ہے۔ زیادہ بے چینی کہیں دکھائی نہیں دے رہی۔ لگتا ہے سب اپنے اپنے حصہ پر خوش ہیں۔
٭٭٭٭٭
آئی ایم ایف نے کپتان کے خط کا کوئی جواب نہیں دیا۔
نامہ بر تو ہی بتا تو نے تو دیکھے ہیں
کیسے ہوتے ہیں وہ خط جن کے جواب آتے ہیں
بہت شور تھا کہ اڈیالہ جیل کے قیدی نے آئی ایم ایف کو خط لکھا ہے کہ موجودہ حکومت کے پاس جعلی مینڈیٹ ہے اس لیے اسے قرضہ نہ دیں کیونکہ قرضے کی واپسی کون کرے گا۔ اب قیدی کا خیال تھا کہ اس طرح آئی ایم ایف والے پریشان ہو کر پاکستان کو قرضہ نہیں دیں گے اور ملک کی معیشت خراب ہونے سے موجودہ نئی حکومت کا بیڑہ غرق ہو جائے گا۔ مگر نجانے کیا ہوا بیک وقت پہلے امریکہ کے ترجمان وزارت خارجہ نے عمران کے الزامات کو مسترد کر دیا اور کہا کہ امریکہ کا عمران کی حکومت کے خاتمے میں کوئی کردار نہیں تھا۔ یوں ان کے امریکہ کو بھیجے پیغامات چلا ہوا کارتوس ثابت ہوئے۔ اب آئی ایم ایف والوں نے بھی عجب بے مروتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کپتان کو پہچاننے سے بھی انکار کر دیا اور انکے خط کا جواب دینا مناسب نہ سمجھا۔ شاید کسی نے اسے کھول کر پڑھنے کی زحمت تک گوارہ نہیں کی۔ یوں دوست ممالک کی طرف سے اربوں ڈالر کی امداد میں توسیعی مدت ملنے کی وجہ سے اب امید ہے آئی ایم ایف کو بھی چوں چراں کی نوبت نہیں آئے گی اور وہ معاہدے کے مطابق قرضے کی فراہمی یقینی بنائے گا جس سے ملک کی معیشت پر اچھا اثر ہو گا۔ خدا را ہمارے سیاستدان بھی ہوش کے ناخن لیں اور ملک سے باہر دیارِغیر میں اپنے ملک کو یوں بدنام کرنے کی منفی کوششوں سے باز رہیں۔
٭٭٭٭٭٭