مولانا قاری محمد سلما ن عثمانی
دین اسلام میں والدین کیساتھ حسن سلوک کی شدید تاکید کی گئی ہے اور ان سے بد سلوکی کرنے سے منع کیا گیا ہے، اولاد پر والدین کا حق اتنا بڑا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حق کے ساتھ والدین کا حق بیان فرمایا ہے۔یعنی مخلوق خدا میں حق والدین کو باقی تمام حقوق پر ترجیح دی ہے، اسی طرح حضور نبی کریمؐ نے بھی والدین کی نافرمانی کرنے اور انہیں اذیت و تکلیف پہنچانے کو کبیرہ گناہ قرار دیا ہے،والدین سے بدسلوکی کرنے والے بدنصیب کو رحمت الٰہی اور جنت سے محروم قرار دیا ہے،اللہ رب العزت نے انسانوں کو مختلف رشتوں میں پرویا ہے، ان میں کسی کو باپ بنایا ہے تو کسی کو ماں کا درجہ دیا ہے اور کسی کو بیٹا بنایا ہے تو کسی کو بیٹی کی نسبت عطا کی ہے، غرض ر شتے بنا نے کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کے حقوق مقر ر فرمائے ہیں، ان حقوق میں سے ہر ایک کا ادا کر نا ضروری ہے، لیکن والد ین کے حق کو اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں اپنی بندگی اورا طا عت کے فوراً بعد ذکر فرمایا، یہ اس بات کی طرف اشا رہ ہے کہ رشتوں میں سب سے بڑا حق والدین کا ہے۔ اللہ رب العزت فرماتے ہیں،ترجمہ ’’اور تیرے رب نے یہ حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت مت کرو اور اپنے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ، اگر وہ تیری زندگی میں بڑھاپے کو پہنچ جائیں، چاہے ان میں ایک پہنچے یا دونوں (اور ن کی کوئی بات تجھے ناگوار گزرے تو) ان سے کبھی ’’ہوں‘‘ بھی مت کرنا اور نہ ان سے جھڑک کر بولنا اور ان سے خوب ادب سے بات کر نا، اور ان کے سامنے شفقت سے انکساری کے ساتھ جھکے رہنا اور یوں دعا کر تے رہنا:اے ہمارے پروردگار! تو اْن پر رحمت فرما، جیسا کہ انہوں نے بچپن میں مجھے پالا ہے (صرف ظاہر داری نہیں، دل سے اْن کا احترام کرنا) تمہارا رب تمہارے دل کی بات خوب جانتا ہے اور اگر تم سعادت مند ہو تو وہ توبہ کرنے والے کی خطائیں بکثرت معاف کرنے والا ہے‘‘(سورۃ الاسراء) اس آیت کریمہ میں اللہ جل جلالہ نے سب سے پہلے اپنی بندگی و اطاعت کا حکم ارشاد فرمایا ہے کہ میرے علاوہ کسی اور کی بندگی ہر گز مت کرنا، اس کے بعد فرمایا کہ: اپنے والدین کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آؤ۔ اولاد کو یہ سوچنا چاہیے کہ والدین نہ صرف میرے وجود کا سبب ہیں، بلکہ آج میں جو کچھ ہوں‘ انہی کی برکت سے ہوں، والدین ہی ہیں جو اولاد کی خاطر نہ صرف ہر طرح کی تکلیف، دکھ اور مشقت کو برداشت کر تے ہیں، بلکہ بسا اوقات اپنا آرام و راحت، اپنی خوشی و خواہش کو بھی اولاد کی خاطر قربان کردیتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ہے ’’یعنی ان کے ساتھ انتہائی تواضع و انکساری اور ا کرام و احترام کے ساتھ پیش آئے، بے ادبی نہ کرے، تکبر نہ کرے، ہر حال میں اْن کی اطاعت کرے الا یہ کہ وہ اللہ کی نا فرمانی کا حکم دیں تو پھر اْن کی اطا عت جائز نہیں۔ سورہ عنکبوت میں اللہ تعالیٰ کا ارشادِ گرامی ہے’’ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کر نے کا حکم دیا ہے اور ساتھ یہ بھی بتادیا ہے کہ اگر وہ تجھ پر اس بات کا زور ڈالیں کہ تو ایسی چیز کو میرے ساتھ شریک ٹھہرائے، جس کے معبود ہونے کی کوئی دلیل تیرے پاس نہ ہو تو اْن کا کہنا مت ماننا۔‘‘اللہ تعالیٰ نے خاص طور سے والدین کے پڑھاپے کو ذکر فر ماکر ارشاد فرمایا کہ اگر ان میں کوئی ایک یا وہ دونوں تیری ز ند گی میں پڑھا پے کو پہنچ جا ئیں تو اْن کو ’’اْف‘‘بھی مت کہنا اور نہ اْن سے جھڑک کر بات کرنا،روایات میں ’’اْف‘‘ کا ترجمہ ’’ہوں‘‘ سے کیا ہے کہ اگر ان کی کوئی بات نا گوار گزرے تو ان کو جواب میں ’’ہوں‘‘ بھی مت کہنا۔ اللہ رب العزت نے بڑھاپے کی حالت کو خا ص طور سے اس لیے ذکر فرمایا کہ والدین کی جوا نی میں تو اولاد کو نہ ’’ہوں‘‘ کہنے کی ہمت ہوتی اور نہ ہی جھڑکنے کی، جوانی میں بدتمیزی اور گستاخی کا اندیشہ کم ہوتا ہے، البتہ بڑھاپے میں والدین جب ضعیف ہوجاتے ہیں اور اولاد کے محتاج ہوتے ہیں تو اس وقت اس کا زیادہ اندیشہ رہتا ہے۔ پھر بڑھاپے میں عا م طور سے ضعف کی وجہ سے مزاج میں چڑچڑاپن اور جھنجھلاہٹ پیدا ہوتی ہے، بعض دفعہ معمولی باتوں پر اور بسااوقات درست اور حق بات پر بھی والدین اولاد پر غصہ کر تے ہیں، تو اب یہ اولاد کے امتحان کا وقت ہے کہ وہ اس کو برداشت کر کے حسن سلوک کا مظاہرہ کر تے ہیں، یا نا ک بھوں چڑھا کر بات کا جواب دیتے ہیں، اس موقع کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دیا ہے کہ جواب دینا اور جھڑک کر بات کرنا تو دور کی با ت ہے، ان کو’’اْف‘‘ بھی مت کہنا اور ان کی بات پر معمولی سی ناخوشگواری کا اظہار بھی مت کرنا،حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کا بیان ہے کہ میں نے حضور نبی کریم سے سوال کیا کہ اللہ تعالی کو کون سا عمل محبوب ہے؟تو آپ نے ارشاد فرمایا بروقت نماز ادا کرنا،میں نے عرض کیا پھر کونسا؟آپ نے ارشاد فرمایا والدین سے نیکی کرنا،میں نے عرض کیا پھر کونسا؟ آپؐ نے ارشاد فرمایا اللہ تعالی کی راہ میں جہاد کرنا(بخاری شریف970مسلم شریف 85)حضرت عبداللہ ابن عمرؓسے روایت ہے کہ ایک شخص آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپؐ سے جہاد کیلئے اجازت طلب کی تو آپؐ نے فرمایا کیا تمہارے والدین زندہ ہیں؟ اس شخص نے عرض کیا جی ہاں۔ تو آپؐ نے فرمایا پھر انہی کی خدمت کر کے جہاد کر (بخاری شریف ) اللہ تعالیٰ ہمیں والدین کی خدمت کر نے کی توفیق نصیب فر مائے۔آمین