پروفیسرمولانا محمد یوسف خان
حضرت ام کلثوم بنت عقبہ بن ابی معیط ؓسے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہؐ کو یہ فرماتے سنا کہ وہ شخص جھوٹا نہیں جو لوگوں کے درمیان صلح کرائے،بھلائی کی بات کہے اور ایک طرف سے دوسری طرف بھلائی کی بات پہنچائے ۔گھر اور معاشرہ میں جب انسان مل جل کر زندگی گزارتے ہیں تو جہاں خوشگوار اور محبت بھرے لمحات گزرتے ہیں وہاں کبھی کبھی اختلافات بھی سامنے آتے ہیں۔ چاہیئے تو یہی ہے کہ یہ انسان آپس میں خود ہی مصالحت کر لیں،عفو و درگزر سے کام لے لیں،لیکن کبھی حالات ایک نازک موڑ تک پہنچ جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ النساء کی آیت نمبر میں اس فساد عظیم کا دروازہ بند کر نے کے لیے حکام وقت،فریقین کے اولیاء اور حامیوں کو اور مسلمانوں کی جماعت کو خطاب کر کے ایک ایسا پاکیزہ طریقہ بتلایا جس سے فریقین کا اشتعال بھی ختم ہو جائے اور الزام تراشی کے راستے بھی بند ہو جائیں اور ان کے آپس میں مصالحت کی راہ نکل آئے،اور گھر کا جھگڑا گر گھر میں ختم نہیں ہوا تو کم از کم خاندان ہی میں ختم ہو جائے۔ عدالت میں مقدمہ کی صورت میں کچہری اور جیلوں میں یہ جھگڑا نہ چلے۔ وہ یہ کہ ارباب حکومت یا فریقین کے اولیاء یا مسلمانوں کی کوئی مقتدر جماعت یہ کام کرے کہ اگر میاں بیوی میں اس طرح اختلاف ہو جائے تو ان کی آپس میں مصالحت کرانے کے لیے’’دوحَکَم‘‘ مقرر کریں ایک مرد کے خاندان سے دوسرا عورت کے خاندان سے،اور ان دونوں جگہ لفظ ’’حَکَم‘‘سے تعبیر کر کے قرآن کریم نے ان دونوں شخصوں کے ضروری اوصاف کو بھی متعین کر دیا کہ ان دونوں میں جھگڑوں کا فیصلہ کرنے کی صلاحیت موجود ہو اور یہ صلاحیت ظاہر ہے کہ اسی شخص میں ہوسکتی ہے جو ذی علم بھی ہو اور دیانتدار بھی۔
چنانچہ ایک ’’حَکَم‘‘مردکے خاندان کا اور ایک عورت کے خاندان کا مقرر کر کے دونوں میاں بیوی کے پاس بھیجے جائیں اب وہاں جا کر یہ دونوں کیا کام کریں اور ان کے اختیارات کیا ہیں؟ قرآن کریم نے اس کو متعین نہیں فرمایا۔ البتہ آخر میں جملہ ارشاد فرمایا:یعنی اگر یہ دونوں حَکَماصلاح حال اور باہمی مصالحت کا ارادہ کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان کے کام میں مدد فرمائیں گے اور میاں بیوی میں اتفاق پیدا فرما دیں گے۔
ایک مرد اور ایک عورت حضرت علیؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دونوں کے ساتھ بہت سی جماعتیں تھیں۔حضرت علیؓ نے حکم دیا کہ ایک حَکَم مردکے خاندان سے اور ایک عورت کے خاندان سے مقرر کریں۔ جب یہ’’حَکَم‘‘تجویزکر دیئے گئے تو ان دونوں سے خطاب فرمایا کہ تم جانتے ہو تمہاری ذمہ داری کیا ہے؟اور تمہیں کیا کرنا ہے؟سن لو!اگر تم دونوں ان میاں بیوی کو یکجا رکھنے اور باہم مصالحت کرادینے پر متفق ہو جاؤ تو ایسا ہی کر لو،اور اگر تم یہ سمجھو کہ ان میں مصالحت نہیں ہوسکتی یا قائم نہیں رہ سکتی اور تم دونوں کا اس پر اتفاق ہو جائے کہ ان میں جدائی مصلحت ہے تو ایسا ہی کر لو۔ یہ سن کر عورت بولی کہ مجھے یہ منظور ہے۔دونوں حَکَم قانون الہی کے موافق جو فیصلہ کر دیں خواہ میری مرضی کے مطابق ہو یا خلاف مجھے منظور ہے۔لیکن مرد نے کہا کہ جدائی اور طلاق تو میں کسی حال میں گوارا نہیں کروں گا، البتہ ’’حَکَم‘‘کو یہ اختیار دیتا ہوں کہ مجھ پر مالی تاوان جو چاہیں ڈال کر اس کو راضی کر دیں۔حضرت علی ؓ نے فرمایا کہ نہیں تمہیں بھی ان حکمین کو ایسا ہی اختیار دینا چاہیے جیسا کہ عورت نے دے دیا۔ اس واقعہ سے بعض آئمہ مجتہدین نے یہ مسئلہ اخذ کیا ہے کہ ان حکمین کا بااختیار ہونا ضروری ہے جیسا کہ حضرت علی ؓنے فریقین سے کہہ کر ان کو باختیار بنوایا۔ اور امام اعظم ابو حنیفہ اور حضرت حسن بصری نے یہ قرار دیا کہ اگر ان حکمین کا باختیار ہونا امر شرعی اور ضروری ہوتا تو حضرت علی کے اس ارشاد اور فریقین سے رضا مندی حاصل کرنے کی کوئی ضرورت ہی نہ تھی فریقین کو رضا مند کرنے کی کوشش خود اس کی دلیل ہے کہ اصل سے یہ حکمین با اختیار نہیں ہوتے،ہاں میاں بیوی ان کو مختار بنا دیں تو باختیار ہو جاتے ہیں۔
قرآن کریم کی اس تعلیم سے لوگوں کے باہمی جھگڑوں اور مقدمات کا فیصلہ کرنے کے متعلق ایک نئے باب کا نہایت مفید اضافہ ہوا جس کے ذریعہ عدالت و حکومت تک پہنچنے سے پہلے ہی بہت سے مقدمات اور جھگڑوں کا فیصلہ برادریوں کی پنچایت میں ہوسکتا ہے۔فقہاء حضرات نے فرمایا ہے کہ باہم صلح کرانے کے لئے دو حکموں کے بھیجنے کی یہ تجویز صرف میاں بیوی کے جھگڑوں میں محدود نہیں بلکہ دوسرے نزاعات میں بھی اس سے کام لیا جاسکتا ہے اور لینا بھی چاہیے،خصوصا جب کہ جھگڑنے والے آپس میں عزیز و رشتہ دار ہوں کیونکہ عدالتی فیصلوں سے وقتی جھگڑا تو ختم ہو جاتا ہے مگر وہ فیصلے دلوں میں کدورت و عداوت کے جراثیم چھوڑ جاتے ہیں۔حضرت فاروق اعظمؓ نے اپنے قاضیوں کے لئے یہ فرمان جاری فرما دیا تھا کہ:رشتہ داروں کے مقدمات کو انہی میں واپس کر دو تاکہ وہ خود برادری کی امداد سے آپس میں صلح کی صورت نکال لیں،کیونکہ قاضی کا فیصلہ دلوں میں کینہ و عداوت اور سختی پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے۔
فقہائے حنفیہ میں سے قاضی قدس علاوالدین طرابلسی نے اپنی کتاب معین الحکام میں اور ابن شحنہ نے لسان الحکام میں اس مسئلے کی وضاحت فرمادی ہے جس کے ذریعہ فریقین کی رضا مندی سے صلح کی کوئی صورت نکالی جائے ۔ اگرچہ یہ حکم رشتہ داروں کے باہمی جھگڑوں سے متعلق ہے،مگر اس کی جو علت و حکمت اسی فرمان میں مذکور ہے کہ عدالتی فیصلے دلوں میں کدورت پیدا کر دیا کرتے ہیں،یہ حکمت رشتہ داروں اور غیر رشتہ داروں میں عام ہے،کیونکہ باہمی کدورت اور عداوت سے سب ہی مسلمانوں کو بچانا ہے،اس لئے حکام اور قضاء کے لئے یہ مناسب ہے کہ مقدمات کی سماعت سے پہلے فریقین میں رضا مندی کی کوشش کرلیا کریں ۔