حیرت کا مقام ہے کہ پاک ایران گیس منصوبے کے معاہدے پر دونوں ملکوں کے سربراہوں کے دستخط ہونے کے بعد اگرچہ اس بات کا حتمی فیصلہ ہو گیا تھا کہ اب اس میگا پراجیکٹ کی تکمیل کی راہ میں دنیا کی کوئی طاقت رکاوٹ حائل نہیں ہو سکے گی اور چونکہ خصوصاً امریکی انتظامیہ کی جانب سے منصوبے کی مخالفت بھی ٹھنڈی پڑ چکی ہے۔ لہذا پاکستانی عوام کو توانائی کے بحران سے نجات دلانے کے اس پراجیکٹ پر کام جلد از جلد شروع ہو جائے گا لیکن گزشتہ روز ہمارے سرکاری، ذرائع یہ کہہ کر عوام کی امیدوں پر پانی پھیر دیا کہ وزارت خزانہ نے اس پراجیکٹ کے ابتدائی اخراجات کےلئے فنڈز دینے سے فی الحال انکار کر دیا ہے اور حکام کا کہنا یہ ہے کہ نادہندہ صارفین کی جانب سے گیس کے بلوں کی عدم ادائیگی کے باعث اور سبکدوش ہونے والی حکومت کے غیر ضروری اخراجات کی وجہ سے توانائی سیکٹر کا بجٹ بری طرح متاثر ہوا ہے۔ لہذا پاک ایران گیس منصوبہ دوبارہ کھٹائی میں پڑ گیا ہے حکومت کی جانب سے یہ بہانہ بھی بنایا گیا ہے کہ توانائی کے شعبے میں زر اعانت کی ادائیگی کے باعث متعلقہ اداروں کیلئے فنڈز میں زبردست کمی کا سامنا ہے قارئین کو یاد ہو گا کہ عام انتخابات کے شیڈول کے اعلان کے بعد پیپلزپارٹی کی حکومت نے جو سالہا سال سے اس منصوبے پر عملدرآمد میں تاخیر کا باعث بنتی رہی، اچانک ایران کے ساتھ منصوبے پر دستخط کرنے کا فیصلہ کیا جبکہ کہا یہی جاتا ہے کہ یہ فیصلہ درحقیقت سابقہ حکومت کی انتخابی مہم کا بھی حصہ تھا۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ جونہی”صدر محترم“ کو اندازہ ہو گیا ہے کہ گیارہ مئی کے الیکشن کے نتائج کیا نظر آ رہے ہیں تو انہوں نے نہ صرف عوامی فلاح و بہبود کے تمام منصوبوں سے آنکھیں پھیر لی ہیں بلکہ غالباً وزارت خزانہ کو بھی نئے بہانے تراش کر گیس پراجیکٹ کے ابتدائی فنڈز کی واگزاری روک دی ۔نگران وفاقی حکومت کو اس اہم معاملے کا فوری نوٹس لے کر پاک ایران منصوبے پر روکی گئی پیش رفت کا فوری جائزہ لینا چاہئے اور جلد از جلد کام کا آغاز کر دینا چاہئے۔ گیس پائپ لائن کی تنصیب اور متعلقہ انفراسٹرکچر تو حکومت ایران گزشتہ سال ہی میں مکمل کر چکی تھی صرف پیپلزپارٹی کی حکومت نے امریکی دباﺅ تلے آ کر خود ہی راہ میں روڑے اٹکا رکھے تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایران پاکستان کا برادر اسلامی ملک ہونے کے ناطے نہ صرف دفاعی، صنعتی، اقتصادی، زرعی اور دیگر اہم شعبوں میں امداد اور تعاون کا ہاتھ بڑھانے پر تیار ہے بلکہ دونوں قوموں کی روایتی تاریخی دوستی، مذہبی رشتوں اور ثقافتی بندھنوں کو بھی مضبوط تر اور زیادہ مستحکم بنانے میں سرگرم رہا ہے اس کی ایک تازہ مثال ایرانی حکومت کا یہ اعلان ہے کہ وہ حکیم الامت علامہ محمد اقبالؒ کے کلام کے عالمی سطح پر فروغ اور خصوصاً فارسی اشعار کے مختلف زبانوں میں ترجمے کے کام میں بھی بھرپور تعاون کرے گا۔ حیرت کا مقام ہے کہ ہمارے اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا نے علامہ اقبالؒ کی برسی کے موقع پر شاعر مشرقؒ کی شخصیت اور علمی و ادبی خدمات کی تشہیر کے بارے میں ایرانی قونصل جنرل آقائے محمد حسین بنی اسعدی اور خانہ فرہنگ ایران کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر عباس فاموری کے بیانات کو خاطر خواہ اہمیت کیوں نہ دی ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ قونصل جنرل بنی اسعدی نے اپنے ایک بیان میں علامہ اقبالؒ کو پرزور خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ چونکہ ایرانی عوام حضرت علامہ کے فارسی کلام کو بیحد پسند کرتے ہیں اور مختلف مجالس میں فارسی کلام نہ صرف ذوق و شوق سے پڑھا اور سنا جاتا ہے بلکہ اس کی اشاعت کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔ بنی اسعدی کا کہنا تھا کہ ان کی حکومت صدر محمود احمدی نژاد کی ہدایت پر کچھ عرصے بعد اپنے ملک میں علامہ اقبالؒ کی شخصیت اور قومی ملی اور علمی و ادبی خدمات کو اجاگر کرنے کےلئے ”ہفتہ ثقافت“ منانے کا اہتمام بھی کرے گی جس سے دونوں قومیں دوستی اور اخوت کے رشتوں کے حوالے سے قریب تر آ جائیں گے۔ ایرانی قونصل جنرل نے تجویز پیش کی کہ پنجاب یونیورسٹی اورنٹیئل کالج میں ایک ایسا شعبہ بھی قائم کیا جائے جہاں حضرت علامہؒ کے کلام کو مختلف زبانوں میں ترجمہ کر کے بین الاقوامی سطح پر متعارف کرایا جائے تاکہ دیگر ممالک کے علمی و ادبی اور ثقافتی حلقے بھی اس عظیم شخصیت کی خدمات سے استفادہ کر سکیں۔خانہ فرہنگ ایران کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر عباس فاموری نے بھی ایک الگ نشست میں علامہ اقبال کی شخصیت اور قومی سیاسی اور ادبی خدمات کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا تھا کہ ان کے اشعار کی نہ صرف عالم اسلام بلکہ دیگر خطوں کے ممالک میں بھی متعارف کرانے کےلئے ٹھوس اقدامات کئے جائیں جس میں اسلامی جمہوریہ ایران بھی ہر ممکن تعاون کےلئے تیار ہو گا۔ ظاہر ہے کہ حضرت علامہ کے کلام کی عالمی برادری میں اشاعت کا بنیادی کام کرنے کی ذمہ داری ہماری حکومت پر ہے لہذا عام انتخابات کے بعد بننے والی حکومت کو ہر صورت اس کام کا بیڑا اٹھانا ہو گا اور یہ معاملہ یقیناً نظریہ پاکستان کی زیادہ سے زیادہ تشہیر کا باعث بھی بن سکے گا۔