لاہور (سید شعیب الدین احمد سے) صوبائی دارالحکومت میں کھانے پینے کی اشیاءمیں ملاوٹ نے ماضی کے تمام ریکارڈ توڑ دئیے۔ ملاوٹ کرنیوالے عادی مجرموں کو کھلی چھوٹ دیدی گئی ہے۔ جولائی 2012ءسے اب تک 10 مہینے میں کسی ایک ملاوٹ کرنیوالے کو پکڑا نہیں گیا۔ ملاوٹ مافیا کیخلاف عام مہم ہوٹلوں، بیکریوں، جنرل سٹورز تک محدود ہے۔ اتوار بازاروں میں بھی کھلے عام ملاوٹ شدہ اشیاءفروخت ہورہی ہیں۔ ضلعی حکومت کے شعبہ فوڈ کے انسپکٹروں کو دفاتر تک محدود کردیا گیا ہے اور وہ بیچارے ڈینگی کیخلاف مہم چلا رہے ہیں جبکہ فوڈ اتھارٹی کے فیصل آبادی افسران ہر ہفتے اپنے گھروں کو روانہ ہوجانے کی وجہ سے اتوار بازاروں کا رخ بھی نہیں کرتے۔ لاہور میں جعلی بین الاقوامی مشروبات، ملاوٹ شدہ مرچ مصالحہ جات، پانی اور کوکنگ آئل ملا دودھ، اراروٹ سے بنا کیچپ، گلے سڑے پھلوں کے مضر صحت دیسی مشروبات، درآمد شدہ زائد المیعاد جوس اور مشروبات کے ٹن سمیت یہ ملاوٹ شدہ اشیاءشہریوں کو کھلائی جا رہی ہیں۔ شہر میں بادامی باغ، شیرا کوٹ، ٹاﺅن شپ، چونگی امرسدھو، جلو پنڈ، جلوموڑ، کریم پارک، بند روڈ، شاہدرہ، ماچس فیکٹری اور دیگر علاقوں میں بین الاقوامی برانڈ کے مشروبات کی بھرائی کرنیوالی 120 سے زائد فیکٹریاں دھڑلے سے کام کررہی ہیں۔ یہ تمام جعلی مشروبات ریلوے سٹیشن، بس سٹینڈز، شہر کے چوکوں میں پان سگریٹ کی دکانوں، شادی گھروں میں سپلائی ہوتے ہیں۔ مرچوں میں گلی سڑی مرچیں، آٹے کا چھان اور مضر صحت کیمیکل رنگ ملا کر سرخ مرچ تیار کرنے کا کام کھوکھر روڈ، بادامی باغ، اکبری منڈی، محمود بوٹی اور شہر کے دیگر مقامات پر ........مصالحہ چکیوں میں ........دھڑلے سے پس ہورہا ہے۔ ہلدی میں چاولوں کا آٹا اور کیمیکل رنگ ملا کر شامل کیا جاتا ہے۔ چائے میں چنے کے چھلکے اور استعمال شدہ چائے اور کیمیکل ملا رنگ ملا کر اکبری منڈی، یتیم خانہ چوک، چیمبرلین روڈ اور شہر کے دیگر مقامات پر فروخت کی جا رہی ہے۔ مضر صحت کوکنگ آئل شیشے کی خوبصورت بوتلوں میں سجا کر ”سستا“ کہہ کر فروخت کیا جا رہا ہے حالانکہ ملائیشیا سے آنیوالے اس بی کیٹیگری تیل کو جو انسانی صحت کیلئے بیحد مضر ہے ”پراسیسنگ“ کے عمل سے بھی نہیں گزارا جاتا۔ شہر میں مضافات سے دودھ لیکر آنیوالے گوالوں کی چیکنگ کا سلسلہ بند ہوچکا اور گوالے دودھ میں پانی ملا کر کریم، مکھن نکال کر سستا کوکنگ آئل ملا کر فروخت کررہے ہیں۔ ٹماٹو کیچپ جو سموسوں سے لیکر چائنیز کھانوں تک میں استعمال ہورہا ہے، ٹماٹر کی بجائے اراروٹ اور آلو کو ملا کر مضر صحت سرخ رنگ شامل کرکے تیار کیا جا رہا ہے۔ ان تمام کھانے پینے کی اشیاءمیں ملاوٹ روکنے کا ذمہ دار ادارہ گزشتہ حکومت نے ”فوڈ اتھارٹی“ کی شکل میں قائم کیا تھا۔ حیران کن طور پر لاہور کے 200 امیدواروں کو نظرانداز کرکے سابق صوبائی وزیر قانون کے حلقہ کے رہائشی فیصل آباد یونیورسٹی کے 27 سالہ نوجوان گریجوایٹس کو بھرتی کیا گیا جن میں 13 خواتین شامل ہیں۔ فیصل آباد کے یہ ”طلبہ“ لاہور پر اپنے شہر کو ترجیح دیتے ہیں اور ہفتہ اور اتوار اپنے شہر میں گزارنا پسند کرتے ہیں جبکہ ان میں سے کئی روزانہ فیصل آباد جاتے اور اگلی صبح واپس آتے ہیں جس کی وجہ سے ملاوٹ شدہ اشیاءکا کاروبار تیزی سے بڑھ رہا ہے۔