’’یوم مزدور‘‘

May 01, 2014

مولانا عبدالعزیز غازی

 ہرسال یکم مئی کو ’’یوم مزدور‘‘ منایا جاتا ہے ۔ جلسے جلوس کنونشن اور تقاریب کی بھرمارہوتی ہے ۔ ملک کی باگ ڈور پر قابض اشرافیہ ، جو سال بھر غریب کش اور مزدور دشمن پالیسی پر گامزن رہتاہے ، اس دن مزدوروں اور غریبوں سے ہمدردی کا دم بھرتانظر آتا ہے ۔ اسلام کے نظام سیاست وحکومت کے علاوہ دنیا میں عموماً دو آئیڈیا لوجیز کا راج رہا ہے اور ہے ؛ (۱)کمیونزم (Communism) (۲) کیپٹل ازم (Capitalism) ۔ کارل مارکس اور ان کے ساتھی فریڈرک اینجلز نے خدا، نبوت اور آخرت کا انکار کرکے دنیا کو ایک نیا نظام پیش کیا ، جس کی بنیاد محض مادیت پر تھی۔
کمیونزم کی سب سے بڑی خامی یہ تھی کہ اس میں فرد کے لیے کوئی محرک نہیں ہوتا جس میں وہ اپنے ادارے کے لیے اپنی خدمات کو اعلیٰ ترین انداز میں پیش کرسکے اور اس کے لیے زیادہ سے زیادہ محنت کرسکے اور کمیونزم کی دوسری بڑی خامی یہ تھی کہ پورے نظام کو جبر کی بنیاد پر قائم کیا گیا اور شخصی آزادی بالکل ہی ختم ہو کر رہ گئی ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سوویت یونین کی معیشت کمزور ہوتی گئی اور بالآخر یہ ملک 1990میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگیا اور اسکے ساتھ ہی کمیونزم بھی مدفون ہوگیا ۔ کمیونزم نظام کا حامل دوسرا بڑا ملک چین تھا ، جس کی معیشت بھی مسائل کا شکار تھی چنانچہ اس نے بھی کمیونزم کو خیرباد کہہ دیا اور تدریجاً اپنی مارکیٹ کو اوپن کرکے کیپٹل ازم کو قبول کرلیا ۔چونکہ یہ سب کچھ فطری اصولوں کے منافی تھا ، اس لیے پون صدی کے بعد یہ نظریہ دم توڑ گیا ۔ کیپٹل ازم جس نے جاگیرداری کے بطن سے جنم لیا ، نقائص وخامیوں کا مجموعہ اور عیوب کا منبع ہے ۔ کیپٹل ازم کا نظریہ ایڈم سمتھ کے اصول وقوانین پر مشتمل ہے جس میں ہر سرمایہ دار کو یہ آزادی حاصل ہوتی ہے کہ وہ دولت کے جتنے چاہے انبار لگالے۔
 نتیجتاً امیر امیرسے امیرتر اور غریب غریب سے غریب تر ہوتا چلا جاتاہے۔ جاگیردارانہ نظام کی طرح اس نظام میں بھی سرمایہ دار غریب کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر اس کا استیصال کرتا ہے ۔ اس استیصالی کشمکش نے انسانیت کو امیر اور غریب نامی دو طبقات میں تقسیم کردیا ، مئی کے مہینے کی ابتدا لیبر ڈے سے کرنے والے ان ظالم سرمایہ داروں کی دورنگی پہ صدافسوس کہ اس دن تمام لیبریونینز کو اکٹھا کرکے نعرے تو لگوائے جاتے ہیں مگر ان پسے ہوئے طبقات کے حقوق وفرائض کا تعین نہیں کیا جاتا، نہ ہی مزدور کے فرائض کی کوئی حد ہے اور نہ ہی اس کے حقوق کا کوئی پیمانہ۔
دنیا میں بڑھتی ہوئی آبادی کا شور مچانے والا طبقہ اس واضح حقیقت کو فراموش کردیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ آبادی میں اضافے کے ساتھ ساتھ وسائل میں بھی اضافہ فرمادیتے ہیں۔ درحقیقت دنیا میں بڑھتی ہوئی غربت کی وجہ وسائل میں کمی یا یا آبادی میں اضافہ نہیں بلکہ اس کی اصل وجہ دولت کی غیر منصفانہ اور غیر متوازن تقسیم اور گردشِ زر کی کمی ہے ۔ تمام سرمایہ اور دنیا کے سب وسائل چند ہاتھوں میں ہیں اور دنیا کا سرمایہ دار طبقہ ہی ان پر قابض ہے ۔ دن بھر مجبور ہوکر مزدوری کرنے والا مزدور جب اپنی مشقت سے کہیں کم مزدوری لیکر اپنے بچوں میں لوٹتا ہے تو اس کے چہرے پر مایوسی، غم ، غصہ اور خشک مزاجی عیاں ہوتی ہے ۔ سرمایہ دارانہ نظام معیشت نے جہاں معاشی مسائل پیدا کیے ہیں وہیں ہماری روحانی اور ذہنی افکار وروایات کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے ۔
 اس حقیقت سے انکار کرنا ممکن نہیں ہے کہ لیبرڈے منانا اس وقت تک مفید نہیں ہوسکتا جب تک ہم اس نظام کے خلاف نبرد آزما نہیں ہوجاتے اور اسلام کے ان اصولوں کی طرف رجوع نہیں کرلیتے جنھوں نے معاشرے کے ہر فرد کے حقوق کی حفاظت کی ہے ۔ اسلام ہی وہ نظام ہے جس نے درس دیا ہے کہ مزدور کی مزدوری اس کے پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کرو۔ مزدور پر اتنا بوجھ نہ ڈالو جس کو اٹھانے کی وہ طاقت نہیں رکھتا ۔ مزدور کو اس سے کچھ زائد بھی دے دیاجائے جو آپ نے اسکے ساتھ طے کیا ہے ۔آنحضرتؐ نے اپنے خطبۂ حجۃ الوداع کے موقع پر بنی نوع انسان کی آزادی، اور حقوق میں برابری کا جو اعلان کیا ہے ، اس میں مزدور کی شخصی آزادی اور کام کی آزادی کے حقوق بھی شامل ہیں ۔
 قرآن کریم میں تمام لوگوں کے درمیان برابری اور مساوات کا اعلان کیا گیا ہے، ملازم یا خادم ؛آجر اورمالک کا بھائی ہے اور اسی جیسے حقوق ومراعات بھی رکھتا ہے ، ان کی اجرت اورحاصلِ محنت اتنی ہونی چاہیے کہ جس سے وہ اچھا کھا اور اچھا پہن سکیں ، مزدوروں کے اوقات کار ان کی طاقت اور استعداد کے مطابق ہونے چاہئیں۔ایسا سخت اور مشقت والا کام کرنے کو نہ کہاجائے جو اِن کے لیے کرنا مشکل ہو بصورت دیگر ان کی مدد کی جائے یعنی یا خود مدد کرے یا دوسرے افراد کے ذریعے اس کی مدد کی جائے ۔ یہ حقیقت مسلّم ہے کہ ہمارے ملک سمیت دیگر مغربی واسلامی ممالک میں رائج نظام معیشت اسلام کے سنہری اصولوں سے مطابقت نہیں رکھتا، بلکہ یہ سرمایہ داروں کا ایجاد کردہ وہ نظام ہے جس کی عمارت سود، رشوت اور چور بازاری کی بنیاد پر قائم ہے ۔
 اگر آج ہم نے اس نظام سے پیچھا نہ چھڑایا تو ہم غربت کی دلد ل سے نکل نہیں پائیں گے ، ہمارا مزدور لٹتا رہے گا اور امیر حکومت کرتا رہے گا۔ تمام طبقات کو اس استحصالی اور جابرانہ نظام کے خلاف بغاوت کرنی ہوگی اور قرآن وسنت کے بیان کردہ نظام معیشت کو اپناناہوہوگا ، اسی بغاوت کی طرف علامہ اقبالؒ نے اپنے اشعار میں اشارہ کیا ہے۔ …؎
اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخ امرا کے در و دیوار ہلا دو
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی
اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو

مزیدخبریں