یوم مئی کے تقاضے

یکم مئی1886ء کو شکاگو(امریکہ) شہر میں محنت کشوں نے اپنے حقوق کی جدوجہد کے لئے زبردست مظاہرہ کیا محنت کشوں نے اپنی جان کی قربانیاں دے کر اپنے لئے 8گھنٹے روزانہ اوقات کار کا مطالبہ منظور کرایا۔کیونکہ19ویں صدی صنعتی انقلاب کے موقعہ پر انہیں طویل اوقات کار اور معمولی اجرت اور بڑھاپے،حادثہ، بیماری میں بغیر کسی سماجی تحفظ کے غلاموں کی طرح کام لیا جاتا تھا۔ سال 1919ء میں آئی ایل او کے قیام پر اپنی پہلی منظور شدہ کنونشن کی صورت میں کارکنوں کے لئے آٹھ گھنٹے روزانہ اوقات کار تمام حکومتوں پر عمل درآمد کے لئے عالمی معیار قائم کردیا۔ یکم مئی کو محنت کشوں کی جدوجہد کی کامیابی اور انہیں سماج میں باوقار مقام کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے اسے محنت کشوں کا عالمی دن قرار دے دیا گیا ہے۔ اسی وجہ سے اس روز عام تعطیل ہوتی ہے۔
آج پاکستان کے محنت کش موجودہ عالمی معیشت اور کھلی تجارت اور جدید ٹیکنالوجیکل ترقی کے دور اور خاص کر ملک میں دہشت گردی کے منفی اثرات سے سخت پریشان ہے کیونکہ ملک میں نوجوانوں کی عام بے روزگاری اور ضروریات زندگی کی اشیاء میں کمر توڑ مہنگائی سماج میں غریب اور امیروں کے مابین بے پناہ اونچ نیچ غربت میں روز افزوں اضافہ ہورہا ہے۔ جبکہ آئی ایم ایف و ورلڈ بینک کے دباؤ پر تعلیم اور صحت، آٹا اور بجلی کے نرخوں میں حکومت کی خصوصی امداد میں کمی، قومی مفادعامہ کے اداروں کی مجوزہ نج کاری، لیبر قوانین کے عدم اطلاق اور سماج میں بچوں اور جبری محنت کی لعنت اور خواتین کے ساتھ تشدد کے واقعات کے سنگین درپیش مسائل سے محنت کش سخت پریشان ہیں۔ملک میں کم از کم اجرت دس ہزار پے مقرر کی گئی جوکہ اکثر چھوٹے اداروں میں قابل عمل نہیں۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے آٹا کی مہنگائی کے کیس میں خود فیصلہ فرمایا ہے کہ صرف چار افراد کے کنبہ کی آٹا، روٹی کے لئے مبلغ۔18000/روپے سے زائد رقم درکار ہے۔ اس میں بجلی،گیس کرایہ مکان، تعلیم، ٹرانسپورٹ وغیرہ شامل نہیں ہیں۔حکومت نے قومی مفادعامہ کے اداروں بجلی، ریلوے، پورٹ، سوال ایویشن، آئل اینڈ گیس، پی آئی اے کو نج کاری کے حوالے کرنے کا اعلان کررکھا ہے حالانکہ یہ قومی ادارے ماضی میں شفاف انتظامیہ اور سیاسی مداخلت نہ کرنے کی وجہ سے اعلیٰ کارکردگی کے حامل تھے۔ حکومت ان میں انتظامی اصلاحات سے کارکردگی میں اضافہ کرنے کی بجائے اسے ورلڈبینک کے دباؤ پر نج کاری کے حوالے کررہی ہے۔ جبکہ ان کے لاکھوں محنت کشوں سے کوئی مشورہ نہیں کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے ان میں سخت پریشانی ہے اور سراپا احتجاج ہیں۔ حکومت کا فرض ہے کہ عوامی مفاد میں ان فیصلوں پر نظر ثانی کرتے ہوئے ان کے کارکنوں کو اعتماد میں لیں تاکہ ان کی بے چینی دور ہو۔ اسی طرح ملک کے لیبر قوانین پر عدم اطلاق کی وجہ سے کارکنوں کے اکثر اداروں میں نہ صرف کم از کم اجرت بلکہ حادثات و پیشہ وارانہ بیماریوں کو روکنے لئے سیفٹی اصولوں پر عمل نہیں کیا جاتا جس کی وجہ سے بلدیہ ٹاؤن کراچی میں سینکڑوں کارکن آگ لگنے اور فیکٹریز ایکٹ پر عمل درآمد نہ ہونے سے موت کا لقمہ بن گئے۔ صنعتی کارکنوں کو ریٹائر منٹ پر کم از کم پنشن مبلغ۔3600/روپے ماہوار دی جاتی ہے جوکہ اونٹ کے منہ میں زیرہ ہے۔صنعتی کارکنوں کی ریٹائر منٹ کے بعد سوشل سکیورٹی سے مفت طبی سہولتیں ختم ہوجاتی ہیں۔ جبکہ انہیں بڑھاپے میں زیادہ توجہ کی ضرورت ہے۔ وفاقی حکومت کے پاس آجروں سے ورکرز ویلفیئر فنڈ میں وصول کردہ اربوں روپے وزارت خزانہ کے پاس جمع ہیں۔ وزیراعظم پاکستان کا فرض ہے کہ وہ یہ رقم کارکنوں کی رہائشی کالونیوں کی تعمیر اور ان کے بچوں کی بہتر تعلیم وتربیت اور مفت قانونی مدد کی فراہمی اور کارکنوں کی پیشہ وارانہ تعلیم وتربیت و ہنر میں اضافہ کے لئے بروئے کار لائے، کارکنوں کے لیبر قوانین کو حکومت پاکستان کی توثیق شدہ کنونشنوں کے مطابق ہم آہنگ کیا جائے اور سماج میں بچوں و جبری محنت اور عورتوں کے ساتھ تشدد و امتیازی سلوک کی لعنتوں کا جلد از جلد خاتمہ کیا جائے اور سماج میں دولت و جاہ جلال کی بجائے احترام محنت و قومی خدمت کی قدروں کی دربلندی کی جائے۔ ملک میں زرعی اصلاحات کا نفاذ کرکے بے زمین کاشت کاروں کو زمین مہیا کی جائے اور گھریلوں گھروں میں کام کرنے والی خواتین ملازمین اور گھریلو خواتین کارکنوں کی فلاح و بہبود کے لئے موثر قانون سازی کی جائے۔ آئندہ بجٹ میں صنعتی و حکومتی، نیم حکومتی، خود مختار اداروں کے ملازمین کی اجرتوں و تنخواہ ہوں اور پنشن میں مہنگائی کے مطابق اضافہ کیا جائے۔ یکم مئی کے موقعہ پر محنت کش طبقہ یہ مطالبہ کرنے میں حق بجانب ہوں گہ کے انہیں خواتین کی طرح اسمبلیوں و سینٹ اور پالیسی ساز اداروں میں نمائندگی کا حق دیا جائے تاکہ ملک میں غریب عوام کی آواز پر آئندہ بنیادی پالیسیاں مرتب ہوں۔

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...