وزیراعلیٰ پنجاب کو ارکان اسمبلی کی پھر شکایتیں

May 01, 2014

وزیرمملکت عابد شیرعلی نے ڈی سی او فیصل آباد مسٹر نورالامین مینگل کے ہمراہ آٹھ بازاروں کے شہر میں ہونے والے ترقیاتی کاموں کا جائزہ لیتے ہوئے کہا ہے کہ موجودہ حکومت کے وسیع ترقیاتی پروگرام سے فیصل آباد بھی مستفیض ہو رہا ہے۔ اس سلسلے میں شکستہ سڑکوں کی تعمیرومرمت سمیت متعدد دوسرے ترقیاتی کاموں کا اجراء کیا گیا ہے اور تعمیروترقی کا یہ قوم مکمل ہونے سے فیصل آباد کی بہتر شناخت ابھرے گی۔ چوہدری عابد شیرعلی نے ترقیاتی کاموں کے معیار کے حوالے سے تمام محکمانہ امور کو شفاف رکھنے کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ شہر کی خستہ حال سڑکوں کی تعمیرنو کے لئے کولڈملنگ ٹیکنالوجی بروئے کار لائی جا رہی ہے جس کی بدولت نہ صرف تعمیراتی کام زیادہ تیز رفتاری سے مکمل ہو گا بلکہ اس سے ٹریفک اور ماحولیاتی آلودگی کے مسائل بھی پیدا نہیں ہوں گے۔ وزیرمملکت عابد شیرعلی کی طرف سے فیصل آباد شہر میں ترقیاتی منصوبوں کے معیار اور محکمانہ امور کو شفاف رکھے جانے کی یقین دہانی حیران کن ہے۔ عابد شیرعلی فیصل آباد شہر کی مرکزی نشست این اے 84 سے رکن قومی اسمبلی ہیں اور قومی اسمبلی کے اس حلقہ سے پنجاب اسمبلی کے حلقہ 69 سے میاں طاہر جمیل اور دوسرے ذیلی حلقہ پی پی70 سے صوبائی وزیرقانون رانا ثناء اللہ خاں رکن پنجاب اسمبلی ہیں۔ سٹی ڈسٹرکٹ فیصل آباد میںاس وقت مسلم لیگ(ن) دو واضح دھڑوں میں منقسم ہے۔ ایک دھڑے کی سربراہی وزیرمملکت عابد شیرعلی کے والد اور سابق میئر میونسپل کارپوریشن چوہدری شیرعلی کرتے ہیں اور دوسرا دھڑا ان دنوں رانا ثناء اللہ خاں کے اشاروں پر سیاست میں اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ چوہدری شیرعلی کا اپنا ایک سیاسی پس منظر ہے۔ وہ بنیادی طور پر پاکستان پیپلزپارٹی کے تربیت یافتہ ہیں اور جنرل محمد ضیاء الحق کے دور میں 1984ء میں جو بلدیاتی انتخابات ہوئے تھے اس میں میونسپل کارپوریشن کے کونسلر منتخب ہوئے تھے اور چونکہ لاہور کی معروف صنعت کار میاں محمد شریف فیملی سے ان کی قرابت داری تھی لہٰذا 1985ء کے غیرجماعتی انتخابات کے بعد جب میاں محمد نوازشریف وزیراعلیٰ پنجاب منتخب ہو گئے تو چوہدری شیرعلی میونسپل کارپوریشن فیصل آباد کے میئر بھی منتخب ہو گئے۔ وہ 20ویں صدی کے آخری عشرے میں فیصل آباد سے دو مرتبہ قومی اسمبلی کے رکن بھی بنے اور جب پنجاب کے درویش صفت وزیراعلیٰ غلام حیدر وائیں نے دوہری رکنیت پر پابندی لگا دی تو انہوں نے دو مرتبہ میونسپل کارپوریشن کے میئر رہنے کے بعد تیسری مرتبہ اپنے بیٹے چوہدری عابد شیرعلی کو میئر منتخب کرا دیا ۔ وزیرمملکت عابد شیرعلی نے اب تو ڈی سی او نورالامین مینگل کے پہلو میں کھڑے ہو کر فیصل آباد شہر کے عوام کو یہ یقین دہانی کرا دی ہے کہ ترقیاتی کاموں کے معیار اور محکمانہ امور کو شفاف رکھا جائے گا مگر ان سے کوئی سوال کرے کہ جب دو اڑھائی ارب روپے کے بگ سٹی ترقیاتی فنڈز میں ایف ڈی اے نے ڈیڑھ ارب روپے کے ٹھیکے فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے صوبائی وزیرقانون کے ’’پسندیدہ‘‘ ٹھیکیدار کو دے دیئے تھے تو پی پی 69 سے پنجاب اسمبلی کے رکن میاں طاہر جمیل نے ان ٹھیکوں میں کروڑوں روپے کی کرپشن کی وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد شہبازشریف کو کس کے اشارے پر درخواست دی تھی۔ سارا شہر جانتا ہے کہ میاں طاہر جمیل ’’ہزماسٹر وائس‘‘ کا کردار ادا کر رہے تھے۔ یہ ٹھیکے منسوخ ہو گئے، اس کی مبینہ طور پر دو اعلیٰ اختیاراتی کمیٹیاں بنیں۔ ان کمیٹیوں نے اربوں روپے کے ان ٹھیکوں میں ’’کرپشن اور کمیشن‘‘ کے حوالے سے کیا رپورٹ دی، کسی کو کچھ معلوم نہیں ہے لیکن اب انہی ترقیاتی کاموں کے معیار اور محکمانہ امور کو شفاف رکھے جانے کی یقین دہانی خود عابد شیرعلی کرا رہے ہیں۔ وہ جب ڈی سی او کے ہمراہ ترقیاتی کاموں میں پیش رفت کا جائزہ لے رہے تھے تو ان کا ہزماسٹر وائس رکن پنجاب اسمبلی میاں طاہر جمیل بھی ان کے ہمراہ تھا اور اب اس کے لب بھی سلے ہوئے تھے گویا ان ترقیاتی کاموں کی اربوں روپے کی ترقیاتی رقوم کی بندربانٹ میں صوبائی وزیر اور وزیرمملکت دونوں میں کوئی اختلاف نہیں رہ گیا تھا اور کہا جا رہا ہے کہ اب شہر کے چند دوسرے ارکان اسمبلی نے وزیراعلیٰ کو فیصل آباد بگ سٹی ترقیاتی فنڈز میں کرپشن کی درخواست دے دی ہے۔گویا گورننس اور کرپشن ایک دوسرے کی ضد بن گئی ہے۔ لہٰذا ہم یقین کر لیتے ہیں کہ اب سب اچھا ہی ہو گا!۔ کیونکہ ڈی سی او نورالامین مینگل نے یقین دہانی کروائی ہے کہ شہر کی خستہ حال سڑکوں کی تعمیرنو کے لئے کولڈملٹنگ ٹیکنالوجی بروئے کار لائی جا رہے جس کی بدولت ایک تو کام جلد مکمل ہو گا اور دوسرے اس ٹیکنالوجی سے استفادہ کرنے کے باعث شہر کی سڑکوں کو تعمیرنو کے لئے ادھیڑ دیئے جانے کے باوجود شہر میں نہ تو ٹریفک کا کوئی مسئلہ پیدا ہو گا اور نہ ہی ماحولیاتی مسائل پیدا ہوں گے۔ سچ تو یہ ہے کہ اس سے قبل بھی شہر میں بہت سی اہم سڑکیں ٹوٹی ہوئی تھیں، جن کی تعمیر نو کی ضرورت تھی لیکن سڑکوں کی تعمیر نو کے لئے جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کا تجربہ کرنے کے لئے شہر کی انتہائی مصروف سڑکوں مدینہ ٹاؤن سوساں روڈ اور حبیب جالب روڈ اکھاڑ کر کیوں پھینک دی گئی ہیں اور اب ان دونوں سڑکو ںکی تعمیر نو میں تاخیر کی کیا وجہ ہے۔ کیا ان دونوں سڑکوں کو صوبے میں نئے مالی سال کے آغاز سے پہلے پہلے مکمل کرایا جا سکتا ہے؟ رمضان المبارک اور عیدالفطر سے پہلے یہ سڑکیں مکمل نہ ہوتیں تو شہر کی ان دونوں مصروف مارکیٹوں میں کاروبار کرنے والوں کی مشکلات بھی بڑھ جائیں گی۔
وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے فیصل آباد میں مختلف ترقیاتی پروگرامز کے لئے 6۔ارب 10کروڑ کے فنڈز مختص کر رکھے ہیں اور لارج سٹی پیکج کے تحت ملنے والے 2۔ارب 28کروڑ 74ہزار روپے اس کے علاوہ ہیں اور اس شہر کی یہ بدقسمتی ہے کہ یہ سب ترقیاتی کام خصوصاً فیصل آباد کی سڑکیں این ایل سی اور جیسی مستند تعمیراتی کمپنیوں کی بجائے ایف ڈی اے کے ذریعے کروائے جا رہے ہیں ۔ شہریوں کا خیال ہے کہ یہ سب کچھ ایف ڈی اے کے ذریعے اس لئے کرایا جا رہا ہے تاکہ اربوں کے ترقیاتی منصوبوں میں عوامی نمائندوں اور سرکاری دفتروں کے انجینئروں، فنانس افسروں اور ایف ڈی اے کے کارمختاروں کو ٹھیکیداروں سے اپنا اپنا کمیشن ملتا رہے۔ ٹھیکے دار جب کسی تعمیراتی کام میں ٹھیکے کی ایک تہائی رقم متعلقہ سرکاری دفاتر اور شہر کے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کو کمیشن میں دے دے گا تو پھر یہ سڑکیں کس طرح پائیداری کے ساتھ پایہ تکمیل تک پہنچ سکتی ہیں۔ کوئی ذمہ دار بتائے کہ کروڑوں روپے کی لاگت سے جو کینال روڈز تعمیر کرائی گئی ہیں ان کو چھ ماہ کے اندر اندر پیچ ورک کی کیوں ضرورت پڑ گئی ہے۔ دراصل ہمارے ہاں تعمیراتی کاموں کے حوالے سے سرکاری ر قوم کی محض بندربانٹ ہی کی جاتی ہے۔ ٹھیکیدار کو اس وقت تک ٹھیکہ نہیں ملتا جب تک وہ عوامی نمائندوں اور محکمانہ امور کے ذمہ داروں کو فوری طور پر مطلوبہ کمیشن نہیں دے دیتا۔ باقی جو بچے اس میں سے 50فیصد ٹھیکیدار کی آمدنی ہوتی ہے اور پچاس فیصد سے ترقیاتی کام مکمل کرائے جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں ان منصوبوں میں لگنے والی رقوم کی چیکنگ کا کوئی پیمانہ نہیں ہے۔ بس روایتی تقریروں اور زبانی جمع خرچ کے بیانات سے کام لیا جاتا ہے اور ہر سال اربوں روپے اس طرح ضائع ہوتے ہیں۔ حکومتی ارکان کو ہمیشہ سے کروڑوں روپے کے ترقیاتی کاموں کی ہڈی ڈالی جاتی ہیاسی لئے اب ترقیاتی فنڈز میں کمیشن نے اقتدار کے ایوانوں کو اس حد تک آلودہ کر رکھا ہے کہ ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کی سیاسی وفاداریوں کی گاڑی اسی ’’ڈیزل‘‘ سے چلتی ہے اور جب تک ارکان قومی و صوبائی اسمبلی ترقیاتی کاموں کے نگران رہیں گے اس ملک میں کوئی بلدیاتی نظام رائج اور کامیاب نہیں ہو سکے گا!

مزیدخبریں