عالمی سطح پر اثر و رسوخ رکھنا کسی بھی ملک کے لیے بہت اہمیت کا حا مل ہے۔ پرانے وقتوں میں سلطنتوں کی اہمیت میں انکے رقبے اور فوجی قوت کا بہت کردار ہوا کرتا تھا۔ بادشاہوں کی خواہش ہوتی تھی کہ وہ زیادہ سے زیادہ علاقہ اپنے زیرانتظام لاسکیں۔ یہی وجہ ہے کہ محمد بن تغلق ، غیاث الدین بلبن ، شیرشاہ سوری اور شہنشاہ اکبر جیسے سلاطین اور بادشاہوں نے دور دراز علاقوں تک اپنی افواج بھیجیں اور اپنی سلطنت کو وسیع کیا۔ وسعت کی وجہ سے شاہ کا دبد بہ بھی بڑھ جاتا تھا۔ اثرو رسوخ بڑھانے کے لیے اپنی افواج کو منظم کرنا اور انہیں جدید اسلحہ سے لیس کرنا بھی اہم سمجھا جاتا تھا۔ جیسے جیسے وقت گزرتا گیا، عالمی سطح پر اہمیت کے تقاضے بھی بدلتے گئے۔ معاشی استحکام کو ملکی اور عالمی امور میں اتنی اہمیت حاصل ہوگئی کہ جس کی پہلے کبھی نظیر نہیں ملتی۔ جاپان اور جرمنی نہ تو ایٹمی قوت ہیں اور نہ ہی ان کا رقبہ بہت وسیع ہے مگر اپنی مضبوط معیشت کی وجہ سے اس قدر طاقتور ہیں کہ بعض ممالک کی خارجہ پالیسی پر بھی اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ کسی بھی ملک کی معیشت جتنی مضبوط ہوگی، وہ ملک عالمی سطح پر اتنا ہی طاقتور متصور ہوگا۔ معاشی طور پر کمزور ملک خارجہ پالیسی تو کیا، داخلی اعتبار سے بھی مکمل طور پر آزادانہ فیصلے کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ دو سال قبل جب پاکستان میں عام انتخابات ہوئے تو معاشی بحالی ہر انتخابی جماعت کے منشور میں شامل تھی۔ جب پاکستانی عوام نے ن لیگ کو مینڈیٹ دیا تو حکمران جماعت نے بھی بمطابق منشور معاشی احیا اکنامک ریوائیول کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے کا آغاز کیا جن کے اب مثبت نتائج برآمد ہو رہے ہیں۔2013 میں پاکستان کا نام افغانستان جیسی پسماندہ ریاستوں کے ساتھ لیا جاتا تھا۔ہمارا ملک ناکام ریاستوں میں نویں نمبر پر تھا۔ مگر موجودہ حکومت کی معاشی اعتبار سے موثر کارکردگی سے اب اتنی بہتری آ چکی ہے کہ نہ صرف آئی ایم ایف بلکہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل جیسے غیر جانبدار ادارے نے بھی پاکستانی معیشت کو بہتری کی جانب گامزن قرار دیا ہے۔ گزشتہ دنوں وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان اس وقت دنیا کی اٹھارہویں معاشی طاقت بن چکا ہے اور اگر موجودہ حکومت کی پالیسیاں تسلسل سے جاری رہیں تو اس سال کے اختتام تک ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر 18.29 بلین ڈالر سے بڑھ جائینگے۔ اسحاق ڈار نے بتایا کہ اس وقت صرف سٹیٹ بنک آف پاکستان ہی کے پاس17ارب ڈالر کے ریزروز موجود ہیں۔ وزیرخزانہ نے بتایا کہ آئی ایم ایف کے پاکستانی معاشی کارکردگی کے حوالے سے چھ جائزہ اجلاس ہو چکے ہیں جن میں عالمی مالیاتی ادارے نے ہماری پالیسیوں پر مکمل اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی کریڈ یبلٹی پہلے سے بہتر ہوگئی ہے اور ہماری ریٹنگ بھی مثبت ہوئی ہے۔ ایک بات قابل ذکر ہے کہ پاکستانی معیشت کو بہت ساخسارہ قومی اداروں کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے ہورہا تھا، چنانچہ موجودہ حکومت نے کڑوی گولی کھاتے ہوئے تقریباً 35قومی اداروں کی نجکاری کا فیصلہ کیا ہے جو نہایت خوش آئند ہے ۔ اس اقدام سے ملکی معیشت پر خاطر خواہ اثرات مرتب ہونگے۔ پاکستانی معیشت کے لیے سب سے اہم پیش رفت گزشتہ ہفتے ہوئی جب چینی صدر نے پاکستان کا دورہ کیا جس کو تمام حلقوں کی طرف سے پاکستان کی کامیابی قرار دیا جارہا ہے۔ اس دورہ میں ان منصوبوں پر دستخط کیے گئے جن کی پاکستان کو اشد ضرورت ہے۔ اس ڈویلپمنٹ پرا پوزیشن پارٹی کے سربراہ آصف زرداری نے بھی اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ پاکستان کے دوسرے سیاسی رہنماوں کو بھی چاہئے کہ ان منصوبوں کو متنازعہ بنانے کی عالمی سازشوں کو کامیاب نہ ہونے دیں۔ تمام منصوبوں پر چینی صدر کی موجودگی میں دستخط ہوئے ہیں لہذا ان کی صحت اور تکمیل کے بارے میںبھی کسی کو کوئی شبہ نہیں رہنا چا ہئیے۔ چینی صدر کے دورہ سے پاک چین سٹر یٹجک پارٹنر شپ کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا ہے جس سے دونوں ملکوں کا مفاد وابستہ ہے۔ چین پاکستان میں 46بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کریگا جس میں سے 11بلین ڈالر انفراسٹرکچر جبکہ 35بلین ڈالر انرجی پر انوسٹ ہونگے۔ انرجی کے حوالے سے چین کوئلے ، ہوا ، پانی اور شمسی توانائی سے چلنے والے منصوبوں پر سرمایہ کاری کرے گا جس کا براہ راستہ فائدہ پاکستانی عوام کو پہنچے گا اور ملک میں خوشحالی آئیگی۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پاکستان اور چین کے درمیان شاہراہ ریشم سے دونوں ممالک کی معاشی ترقی منسلک ہے۔ سنکیانگ سے گوادر تک 3ہزار کلومیٹر لمبی اقتصادی راہداری سے ہماری معیشت اس قدر مستحکم ہو جائے گی کہ پھر ہمیں کسی مالیاتی ادارے سے قرض لینے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ یہی موجودہ حکومت کا ویژن ہے۔