محنت کشوں کی جدوجہد کی فتح کا دن

شگاکو (امریکہ) میں 1866ء میں ہزاروں محنت کشوں نے سولہ، سولہ گھنٹے ان سے روزانہ غلاموں کی طرح کام لینے کے خلاف اور اوقات کار آٹھ گھنٹے روزانہ مقرر کرانے کے حق میںزبردست احتجاجی جلوس نکالا انہوں نے اپنی جانوں کی قربانی دے کر اپنا جائز مطالبہ تسلیم کرایا۔ دنیا بھر کے محنت کش اپنے اپنے ملک میں منظم ہو کر اس عالمی دن پر منظم جلسے جلوس نکال کر شکاگو کے شہداء کو خراج عقیدت پیش کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے مطالبات کے حق میں آواز بلند کرتے ہیں۔
آزادی پاکستان کی جدوجہد میں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے 1940ء میں مسلم لیگ کونسل کے اجلاس کو خطاب کرتے ہوئے واضح کیا تھا کہ اگر ملک کا جاگیردار طبقہ یہ سمجھتا ہے کہ وہ عیش کرتے رہیں اور کسان زندگی کی بنیادی ضروریات سے محروم رہیں تو انہیں ایسا پاکستان نہیں چاہیے یہی وجہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد انہوں نے کراچی میں ٹیکسٹائل ملز کا افتتاح کرتے ہوئے واضح کیا تھا کہ ملک کی صنعتی ترقی کے ساتھ ساتھ محنت کشوں کی بنیادی ضروریات مہیا کرنے کے لیے سرکاری شعبے میں قائم کیے جائیں گے مفکر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے ایک انقلابی شاعر ہونے کی حیثیت سے محنت کشوں کے حقوق کی سربلندی کے لیے واضح طور پر فرمایا …؎
اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخ امراء کے در و دیوار ہلا دو
جس کھیت سے دہقان کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو
(ڈاکٹر علامہ محمد اقبال)
آج محنت کشوں کے عالمی دن کے موقع پر موجود برسراقتدار حکومت کا فرض ہے کہ وہ سماج میں غربت، جہالت، بے روزگاری، جاگیرداری، سرمایہ داری، کمسن بچوں سے مشقت، جبری محنت، خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک اور سماج میں امیر و غریب کے مابین بے پناہ فرق دور کرنے کے لیے اور آئین اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ضمانت شدہ بنیادی حقوق کو حکومت پاکستان کی آئی ایل او توثیق شدہ کنونشنوں کے مطابق ملک میں ترقی پسندانہ لیبر قوانین اور ان کے موثر نفاذ کا انتظام کرے۔ قومی اقتصادی خود کفالت اپنا کر ملک کو ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے قرضوں کی رنجیروں سے آزاد کرائے۔ ملک میں بجلی کی لوڈشیڈنگ اور مہنگی بجلی کے خاتمہ، صنعت و زراعت کی ترقی اور عوام کو بجلی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے جنگی بنیادں پر ہائیڈل و گیس کے بجلی گھر تعمیر کرائے جو کہ صرف اڑھائی روپے اور سات روپے فی یونٹ بجلی مہیا کریں گے جبکہ نجی تھرمل بجلی گھروں کی بجلی فی یونٹ 28 تا 30 روپے ہے اس لیے حکومت کا فرض ہے کہ وہ محکمہ بجلی کی نجکاری کی بجائے اس میں انتظامی اصلاحات کا نفاذ کرکے کارکردگی میں اضافہ کرے۔ مقام افسوس ہے کہ خود وزیر خزانہ نے اعلان کیا تھا کہ 200 ارب ڈالر پاکستان کے سرمایہ داروں و جاگیرداروںاور بعض سیاستدانوں کے سوئس بینکوں میں جمع ہیں حکومت انہیں واپس لا کر قومی صنعت و زراعت کی ترقی کے لیے کیوں نہیں بروئے کار لاتی۔
پاکستان میں صرف ایک فیصدی آبادی ٹیکس ادا کرتی ہے جس کی 80 فیصد تعداد تنخواہ دار طبقہ ہے حکومت سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور سیاستدانوں سے ٹیکس وصول کرکے قومی اقتصادی خود کفالت پالیسی اپنا کر پاکستان کی غربت و جہالت کے خلاف جنگ کیوں نہیں کرتی؟ محنت کشوں کی فلاحی سکیموں بمعہ ورکرز ویلفیئر فنڈ اور بڑھاپے میں پنشن اور کمپنی منافع میں کارکنوں میں حصہ کے تحت کھربوں روپے قومی خزانے میں جمع ہیں۔ حکومت انہیں کارکنوں کے بچوں کی تعلیم اور ان کی رہائش اور بڑھاپے میں صرف 3600 روپے صرف ماہانہ رقم میں خاطر خواہ اضافہ کرکے اس رقم کو کیوں نہیں استعمال میں لاتی۔ حکومت کا فرض ہے کہ وہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے اصولوں کے مطابق ملک میں لوٹ کھسوٹ کا نظام ختم کرا کر انصاف، جمہوریت، قومی اقتصادی خود کفالت، سماجی اور اقتصادی انصاف کے اصولوں کے مطابق ترقی پسندانہ پالیسی اپنائے اور ملک میں دہشت گردی کی لعنت کو ختم کرانے کے لیے مسلسل جدوجہد کرتی رہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اس نیک مقصد میں کامیاب فرمائے۔آمین

ای پیپر دی نیشن