غریبوں کی زندگی کو بدلنے کی ضرورت

May 01, 2015

راجہ افراسیاب خاں

پاکستان میں امیر لوگوں کی تعداد میں پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد حیرت انگیز حد تک اضافہ ہوا ہے۔ غربت کے جال میں پھنسے لوگوں کی تعداد بھی کوئی کم نہ ہے۔ بیروزگاری عام ہے۔ پاکستان کے کونے کونے میں مانگنے والے لوگ بھی موجود ہیں۔ ایسے لوگ بھی بڑی تعداد میں رہتے ہیں جن کو دو وقت کا پیٹ بھر کے کھانا بھی نصیب نہ ہوتا ہے۔ کئی ایک لوگ آئے دن غربت کی وجہ سے خودکشی کرنے پر مجبور ہوتے ہیں، میرے نزدیک غربت ایک ناقابل معافی جرم ہے۔ اس جرم کے ارتکاب میں سب حکمران، قانون ساز لوگ کاروباری حضرات بڑی تعداد میں شامل ہوتے ہیں۔ سب سے پہلے غربت کی تعریف کرنا ضروری ہے۔ پاکستان میں غریب لوگ وہ ہیں جن کے پاس اپنے ملکیتی رہائشی مکان نہ ہوتے ہیں۔ وہ سرکاری اراضی پر مٹی کی بنی ہوئی جھگیوں میں رہتے ہیں۔انکے پاس کوئی کاروبار یا ملازمت نہ ہوتی ہے ۔وہ تعلیم سے قطعی نابلد ہوتے ہیں۔ قسم قسم کی بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں۔ انکے پاس علاج معالجہ کرانے کا کبھی کوئی سوال پیدا نہ ہوتا ہے۔ اس طرح وہ بھوکے پیاسے اور بیماری کی حالت میں ہی مرجاتے ہیں۔ ’’ایسے علاقے بھی موجود ہیں جہاں پر انسان اور حیوان دونوں مل کر گندے پانی کے تالابوں سے پانی پیتے ہیں۔ خوفناک قسم کی بیماریاں ان ہی گندے پانی کے تالابوں سے شروع ہوتی ہیں اور لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیتی ہیں‘‘۔ اب ہم ایک آزاد قوم اور آزاد ملک ہیں۔ ہمیں کیا کیا کام کرنا ہونگے۔ ہمیںجنگی بنیادوں پر سطح غربت سے نیچے رہنے والے لوگوں کی معاشی زندگی میں بحالی کا کام شروع کرنا ہوگا ، سب سے پہلے مانگنے پر پابندی لگا دیں۔
ملکی سطح پر اس طرح کے غربت کی سطح سے نیچے رہنے والے لوگوں کی گنتی کا کام شروع کرنا ہوگا۔ محکمہ اعدادوشمار کے لوگ ایسے لوگوں کی ایک مکمل جامع فہرست تیار کرینگے۔ یہ کام ہمیں جنگی بنیادوں پر کرنا پڑیگا۔ ظاہر ہے، ہمارے ہاں محدود مالی ذرائع ہیں۔ ایک ایسا قانون بنائیں جس کے تحت ہر امیر شہری اپنی آمدن سے ایک حصہ غربت کو ختم کرنے کیلئے بطور ٹیکس حکومت کو ادا کریگا اس سکیم کا نام ’’پاکستان اینٹی پاورٹی ٹیکس‘‘ ہوگا۔ ان ٹیکس کی رقوم سے ہر رجسٹرڈ غریب شہری کو معقول رقم پر مبنی وظیفہ دیا جائیگا۔ اس رقم کا حجم اتنا ہوگا جس سے ہر غریب شہری پیٹ بھر کے کھانا کھاسکے گا۔ پاکستان کے کونے کونے میں ’’پاکستان رہائشی کالونی‘‘ کے نام سے بستیاں آباد ہونگی۔ یہ مکانات پکے ہونگے۔ ان مکانات کا رقبہ کم ازکم پانچ اور زیادہ سے زیادہ 10 مرلے ہوگا ’’دو کمروں پر مشتمل مکانات میں باقاعدہ ’’کچن‘‘ اور ٹائلٹ ہونگے ۔پانی بجلی گیس سکول اور ہسپتال ایسی بستیوں کا حصہ ہونگے۔ دو لاکھ روپے کی لاگت سے اس طرح کے دو کمرے والے پختہ مکانات تعمیر ہوں گے ’’محکمہ ریلوے‘‘ نے اس طرح کے مکانات بنا رکھے ہیں۔
یہ کام ایسا ہے جس کو کیا جاسکتا ہے۔ شرط صرف اور صرف ایک ہے کہ ہمارے حکمران ایماندار ہوں۔ حب الوطنی سے سرشار ہوں۔ غریب پرور ہوں، پاکستان کو دنیا کی عظیم ترین ترقی یافتہ اقوام میں شامل کرنے کا جوش و جذبہ رکھنے والے ہوں۔‘‘ غربت، جہالت ، بیروزگاری اور ’’بیماری‘‘ کوحرف غلط کی طرح مٹانے کا خیال رکھنے والے ہوں۔ سنگاپور، ملائیشیا اور کوریا وغیرہ نے اس طرح کے کام دنیا کو کر دکھائے ہیں۔ آپ جدید چین کو دیکھ لیں کہ کس طرح اس نے غربت اور بے بسی کا ’’گَلا‘‘ دبا کر اسے ختم کردیا ہے۔ جب پاکستان سے غربت ختم ہوگی تو اس سے شدت پسندی خودبخود ختم ہوجائیگی۔ ’’معاشی ناانصافی‘‘ کی وجہ سے شدت پسندی کی وبا نے جنم لیا ہے۔ یہ میری کئی سالوں کی گہری سوچ کا نتیجہ ہے۔ ’’اللہ تعالیٰ‘‘ نے پاکستان کو لامحدود ذرائع دے رکھے ہیں۔ ان ذرائع کو استعمال میں لانے کی ضرورت ہے۔
بدقسمتی سے ابھی تک اس سلسلے میں کوئی بھی نمایاں کام نہ کیا جاسکا ہے۔ اب وقت آگیا ہے اس طرح کا کام شروع کیا جائے۔ سب سے پہلے ہمیں پاکستان میں شفاف ترین انتخابات عدلیہ اور افواج کی نگرانی میں کرانا ہونگے۔ کسی بھی شہری کو ایسے انتخابات پر کسی قسم کا شک و شبہ نہ ہوگا۔ انتخابات میںدھاندلی کی وجہ سے لوگوں میں بے چینی پیدا ہوئی ہے اور پھر وہ حالات خانہ جنگی کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔اب ہمارے پاس وقت بہت ہی تھوڑا ہے۔ کام بہت زیادہ کرنے کو پڑا ہوا ہے۔ سب سے پہلے ساری قوم مل کر خانہ جنگی کو ختم کرے۔ پاکستان میں امن وامان بحال ہو۔ آئین اور قانون کی رِٹ پاکستان کے کونے کونے میں نافذ العمل ہو۔ معاشی انقلاب لانے سے پہلے یہ سب کام ہمیں کرنا ہونگے۔ملک اور قوم کو اس بات کا پورا پورا علم ہونا چاہیے کہ وہ کون سے عوامل ہیں جن کی وجہ سے پاکستان کے کئی ایک علاقوں میں خانہ جنگی ہورہی ہے۔ ایک ایک کرکے ان تمام باغیوں کے مطالبات کو قوم کے سامنے لانا ہی ہوگا۔
اگر باغی پاکستان میں اسلامی قوانین کا نفاذ چاہتے ہیں تو اس طرح کے قوانین پاکستان میں موجود ہیں۔ باقی ماندہ اسلامی قوانین کے نفاذ کے کام کو بھی مکمل کیا جاسکتا ہے۔
پاکستان کے علماء کا یہ اولین کام ہے کہ وہ اسلام کے باقی ماندہ قوانین کی طرف نشاندہی کریں تاکہ ہماری پارلیمنٹ ایسے قوانین پر عمل کرنے کا اہتمام کرسکے۔ اس طرح کے کاموں کو کرنے کیلئے قانون کو اپنے ہاتھوں میں لینے یا بغاوت کرنے سے کوئی بھی فائدہ نہ ہوگا اس وقت ہمارا پاکستان چاروں طرف سے خوفناک خطرات کی زد میں آچکا ہوا ہے۔ قانون کی عملدراری کو بحال کرنا سب سے ضروری پہلا کام ہے۔
ملک سے غربت کو ختم کرنا بے حد ضروری ہوگیا ہے۔ ہر شہری کیلئے ایک معقول ذریعہ معاش مہیا کرنا حکومت وقت کا فریضہ ہوتا ہے۔ حکومت اپنا فرض جلد ازجلد ادا کرے۔ یہ بات ہمیشہ کیلئے یاد رکھی جائے کہ معاشرے کو سو فیصد بامقصد تعلیم سے آراستہ کرنا ہی تمام مسائل کے حل کا واحد موثر ذریعہ ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ پاکستان کے موجودہ حکمران جہالت کے مسئلے کے خطرناک پہلو سے واقف نہ ہیں آسمان کو چھونے والی عمارتیں تعمیر کرنے سے جہالت کا اندھیرا روشنی میں ہرگز نہ بدل جائیگا۔ اس جدید کام کو مکمل کرنے کیلئے پاکستان کے کونے کونے میں لاکھوں تعلیمی اداروں کو تعمیر کرنا پڑیگا۔ ان لاکھوں درس گاہوں میں جدید ترین تجربہ گاہیں بھی تعمیر کرنا ہوں گی۔ اس سلسلہ میں جاپان، جرمنی، کوریا، چین ‘ ملائیشیا وغیرہ کی مثالوں کو سامنے رکھنا پڑیگا۔ سب سے بڑھ کر ہمیں اس وقت پاکستانی قوم میں ذہنی انقلاب بپا کرنے کی ضرورت ہے ساری قوم ترقی کی اس دوڑ میں دنیا کی دیگر ترقی یافتہ اقوام میں شامل ہوجائیگی۔ ہر شہری کے حقوق کو ہر صورت میں اولیت دی جائے۔ اس کی تمام قسم کی ضروریات کو جنگی بنیادوں پر پورا کرنا ہی ہوگا۔ روٹی، کپڑا، مکان، تعلیم، صحت اور روزگار وغیرہ کو مہیا کرنا پڑیگا۔ اسکے بغیر اور کوئی چارہ نظر نہ آتا ہے۔ ساری قوم اور ملک کو بیدار ہونا پڑیگا۔ یہ کام ہمارا بیدار مغز میڈیا بڑی کامیابی سے کرسکے گا۔

مزیدخبریں