خبروں کے مطابق سعودی بادشاہ عِزّت مآب سلمان بن عبدالعزیز نے ایک شاہی فرمان کے ذریعے ولی عہد شہزادہ مقرن کو سُبکددوش کرکے اُن کی جگہ اپنے بھتیجے‘ شہزادہ محمد بن نائف بن عبدالعزیز کو ولی عہد اور اپنے بیٹے شہزادہ محمد بن سلمان کو نائب ولی عہد مقرر کردیا ہے۔‘‘ خبر یہ بھی ہے کہ ’’سعودی وزیرِ خارجہ سعُود الفیصل اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے ہیں اور شاہ سلمان نے امریکہ میں تعینات سعودی سفیر عادل الجیر کو وزیرِ خارجہ بنادیا ہے۔ سعودی شاہ نے کابینہ میں رد و بدل بھی کیِا ہے اور اپنی فوج کے اہلکاروں کو ایک ماہ کی تنخواہ بھی بطور بونس دینے کا اعلان کیا ہے۔‘‘
خادمِ حرمینِ شرِیفین ہونے کی وجہ سے دُنیا بھر کے مسلمان حکمران اور وہاں کے عوام ہر سعودی بادشاہ کا بہت ہی زیادہ احترام کرتے ہیں۔ پاکستان کے حکمران اور عوام بھی۔ ہر سعودی بادشاہ نے پاکستان کے استحکام اور عوام کی بہبود کا ہمیشہ خیال رکھا۔ پاکستان میں 12اکتوبر 1999ء کو آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے منتخب وزیراعظم میاں نوازشریف کو برطرف کرکے جیل بھجوایا تو سعودی شاہ نے (ذاتی تعلقات کی وجہ سے) میاں صاحب کی جان بخشی کرائی اور کافی عرصہ تک اُن کو اور اُن کے خاندان کو مہمان بنا کر رکھا۔ جنرل پرویز مشرف کے بارے میں بھی یہی کہاجاتا ہے کہ ’’سعودی شاہ نے ہی اپنا اثرورسوخ استعمال کرکے انہیں پورے پروٹوکول کے ساتھ پاکستان سے رخصت کرایا تھا‘‘۔
دراصل وقتاً فوقتاً حج اور عُمرے پر سعودی عرب جانے والے عُلماء سعودی شاہ کو باور کرانے میں کامیاب رہے ہیں کہ ’’پاکستان اسلام کے نام پر بنایا گیا تھا‘‘۔ دسمبر 1984ء کے صدارتی ریفرنڈم میں یہ بات ثابت بھی ہوگئی تھی جس میں باوردی جنرل ضیاء الحق واحد اُمیدوار تھے اور جنہوں نے پاکستان کے عوام سے صِرف ایک سوال پوچھا تھا کہ ’’کیا آپ پاکستان میں اسلام کا نفاذ چاہتے ہیں؟ اور اگر جواب ’’ہاں‘‘ میں ہے تو اِس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے آئندہ 5سال کے لیے جنرل ضیاء الحق کو صدرِ پاکستان منتخب کرلیا ہے‘‘۔ جنرل ضیاء الحق نے اپنی دانِست میں ’’اسلام کا نفاذ‘‘ کِیا لیکن اگر عوام نے اُس سے فائدہ نہیں اٹھایا تو اُن کی بدقسمتی تھی۔ اسلام یا جنرل ضیاء الحق کی نہیں تھی۔
جناب ذوالفقار علی بھٹو غریبوں کے حق میں ’’انقلاب‘‘ لانے کے لیے ’’سوشلزم‘‘ کے نفاذ کا نعرہ بلند کرکے ’’عوامی سیاست‘‘ میں آئے تھے اور پاکستان کے دو لخت ہونے کے بعد دُنیا کے پہلے (شاید آخری بھی) سِویلین چیف مارشل لاء ایڈیٹر بھی بن گئے۔ دروغ برگردنِ راوی کہ اُس کے بعد جناب بھٹو کو کسی عالمِ دین نے بتایا کہ ’’اسلام ہمارا دین ہے‘‘ کی علمبردار پاکستان پیپلز پارٹی اسلام کے نام پر قائم کیے گئے پاکستان میں ’’سوشلزم‘‘ نافذ نہیں کرسکتی‘‘۔ چنانچہ جنابِ بھٹو نے سوشلزم کو اسلامی سوشلزم‘‘ اور محترمہ بے نظیر بھٹو نے ’’مساواتِ محمدی‘‘ بنا دیا اور یہ بات سعودی بادشاہ کو بھی بتا دی گئی تھی۔
صدر جنرل ضیاء الحق کے ذہن میں ’’خلافت‘‘ کا تصّور تھا۔ ابتدائی طور پر انہوں نے 1985ء میں غیر جماعتی بنیادوں پر منتخب ہونے والی پارلیمنٹ کا نام ’’مجلسِ شُوریٰ‘‘ رکھ دیا تھا۔ 17اگست 1988ء میں جنرل ضیاء الحق ہوائی حادثے میں جاں بحق ہوئے لیکن اُن کے بعد سے اب تک پاکستان کی پارلیمنٹ کا نام ’’مجلسِ شُوریٰ‘‘ ہی چلا آرہا ہے۔ 19اپریل کو مصّورِ پاکستان علامہ محمد اقبالؒ کے یومِ وفات پر عوامی جمہوریہ چِین کے صدر عِزّت مآب شِی چِن پِنگ کے خطاب سے پہلے سپیکر قومی اسمبلی جناب ایاز صادق نے مہمانِ عزیز کی خدمت میں سپاسنامہ پیش کرتے ہوئے وضاحت کردی تھی کہ ’’جنابِ والا! ہماری منتخب پارلیمنٹ کا اصل نام ’’مجلسِ شُوریٰ‘‘ ہے اور مہمان صدر عوامی جمہوریہ چین نے بھی اس بات کا بُرا بھی نہیں منایا۔ کیونکہ سعودی عرب کی طرح عوامی جمہوریہ چِین بھی دوست ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرتا۔
تو معزز قارئین و قاریات دو روز قبل (29اپریل کو) چیف جسٹس ناصر المُلک کی سربراہی میں 17رُکنی فل کورٹ لارجز بنچ میں آئین میں 18ویں اور 21ویں ترمیم اور فوجی عدالتوں کے خلاف کیس کی سماعت کے دوران جسٹس جواد ایس خواجہ نے نامور قانون دان جناب حامد خان سے پُوچھا کہ ’’آپ ہمیں بتائیں کہ کیا پارلیمنٹ دو تہائی اکثریت سے پاکستان میں موروثی بادشاہت قائم کرسکتی ہے؟ کہ آئندہ فلاں شخص بادشاہ ہوگا؟‘‘۔ جناب حامد خان نے کہا کہ ’’جی نہیں!‘‘ مَیں تو عام آدمی ہوں مجھے نہیں معلوم کہ ہماری پارلیمنٹ کے کتنے زیادہ اختیارات ہیں؟ مَیں نے تو یہ دیکھا ہے کہ صدرِمملکت اگر فوجی ہو تو پارلیمنٹ اُس کے تابع ہوتی ہے۔ صدر جنرل ضیاء الحق کہا کرتے تھے کہ ’’آئین کیا ہے؟ چند صفحوں کی ایک کتاب‘ جِسے مَیں جب چاہوں پھاڑ کر پھینک سکتا ہوں‘‘۔
سیاستدانوں کے بارے میں جنرل موصوف نے کہا تھا کہ ’’مَیں جب بُلائوں گا سیاستدان اپنی اپنی دُم ہلاتے ہوُئے میرے پاس دوڑے چلے آئیں گے‘‘۔ اور واقعی ایسا ہی ہُوا۔ جو سیاستدان ’’دُم دار‘‘ نہیں تھے‘ انہوں نے بھی دربار میں حاضری کے لیے انہوں نے بھی اپنی اپنی پُشت پر دُم لگوالی تھی۔ ’’پڑھا لکھا پنجاب‘‘ کے وزیرِ اعلیٰ چودھری پرویز الٰہی ’’جمہوری لیڈر‘‘ ہیں لیکن ایک دِن انہوں نے نہ جانے کِس ترنگ میں آکر کہہ دِیا کہ ’’ہم جنرل پرویز مشرف کو وردی سمیت پچاس بار صدرِ مملکت منتخب کرانے کو تیار ہیں‘‘۔ پھر کرنا خُدا کا ایسا ہُوا کہ جنرل پرویز مشرف نے جو‘ اپنی وردی کو اپنی ’’Skin‘‘ (کھال) کہا کرتے تھے خود ہی اپنی وردی اُتاری اور ’’یہ جا اور وہ جا!‘‘۔ اِ س موقع پر ’’شاعرِ سیاست‘‘ نے اپنے سیاسی ماہِیا میں کہا تھا…؎
’’مَیں آکھیا سی لاہ وردی!
وردی لاہ کے تے
گھروں ٹُر گیا بے دردی!‘‘
برطانوی پارلیمنٹ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ۔ ’’وہ مرد کو عورت اور عورت کو مرد نہیں بناسکتی باقی تمام معاملات میں وہ بااختیار ہے۔ برطانیہ کے ’’غیر تحریری آئین‘‘ کے تحت وہاں موروثی بادشاہت ہے۔ لیکن انگریز بہادر ہندوستان سے رخصت ہوتے وقت پاکستان (اور بھارت کو بھی) ایسی بے اختیار پارلیمنٹ دے گیا کہ وہ دوتہائی اکثریت کے ساتھ بھی فیصلہ نہیں کرسکتی کہ ’’فلاں شخص بادشاہ ہوگا!‘‘۔ پاکستان میں سیاسی/ مذہبی جماعتوں کے قائدین نے اپنی اپنی جماعت میں موروثی بادشاہت قائم کررکھی ہے۔ اب کر لو جو کرنا ہے۔
ہمارے یہاں نہ جانے کِس مغربی مفکر/ فلاسفر کا مقولہ پانی میں مدھانی کی طرح گھُمایا جاتا ہے کہ ’’بدترین جمہوریت بہترین آمریت سے اچھی ہوتی ہے‘‘۔ لیکن اُس مفکر/ فلاسفر نے یہ نہیں بتایا کہ ’’اگر کسی مُلک میں نصف صدی سے زیادہ بدترین جمہوریت مسلّط رہے تو وہاں کے عوام کیا کریں؟ بائیبل (عہدنامہ تحقیق) کے مطابق بنی اسرائیل پر 500سال تک ’’Judges‘‘ (قبائلی بزرگوں) کی حکومت رہی۔ پھر انہوں نے 2234قبل از مسیح دُعا مانگی کہ ’’یا اللہ! ہمارا بھی کوئی بادشاہ بنا دے!‘‘ چنانچہ جج اور نبی حضرت ’’Samuel‘‘ (سموئیل) حضرت بِنِ یامین کی اولاد میں سے ’’Saul‘‘ (سائول) کو بادشاہ بنادِیا گیا۔ ہمارے لا تعداد پاکستانی سعودی بادشاہت میں قابلِ رشک زندگی گزار رہے ہیں۔ انہیں کوئی غرض نہیں کہ‘ سعودی بادشاہ کب اور کِس طرح کے فرمان جاری کرتے ہیں۔ ہمارے 76/75لاکھ لوگ اپنا وطن ماں باپ‘ عزیز و اقارب کی قبریں چھوڑ کر غیر ممالک میں آباد ہیں وہ ہمارے یہاں کی بدترین جمہوریت کے باوجود قائِداعظمؒ کے پاکستان کی سلامتی کے لیے دُعائیں مانگتے ہیں۔